نئی دہلی، 11اگست (عا بد انور) اردو کے مشہور شاعرڈاکٹر راحت اندوری کے کورونا مثبت ہونے اور اس سے انتقال کی خبر پر سخت رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے بزم صدف انٹرنیشنل کے چیرمین شہاب الدین احمد اور ان کی پوری ٹیم نے کہا کہ ان کے انتقال کی وجہ سے اردو نے ایک عظیم اور بے باک شاعر کو کھو دیا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔
بزم صدف کے چیرمین نے کہا کہ کورونا وبا پوری دنیا کے لئے قہر بن کر ٹوٹ رہا ہے اور اس کی زد میں بڑ ے بڑے لوگ آچکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ راحت اندوری کے کورونا سے متاثر ہونے کی خبر تشویش میں تھے اور اب ان کی موت کی خبر نے سخت صدمے سے دوچار کردیا ہے۔انہوں نے کہاکہ وہ صرف مشاعر اور بلکہ ہر و خاص و عام میں بے حد مقبول تھے اور ان شاعری زبان زد خام و خاص تھی۔وہ مشاعرے کی جان تھے۔ ان کا مشاعرہ پڑھنے کا انداز نرالا تھا جس کی وجہ سے سامعین اور شائقین بہت توجہ سے ان کا کلام سنتے تھے-
انہوں نے کہا کہ بزم صدف انٹرنیشنل کی پوری ٹیم سرپرست صبیح بخاری، ہندوستان کے ڈائر کٹر ڈاکٹر صفدر امام قادری،محمد عرفان، بین الاقوامی کوآرڈی نیٹر احمد اشفاق اور دیگر اراکین نے ان کے لئے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعا کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کورونا کے دوران اردو کی عظیم ہستیاں ہم سے جدا ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ راحت اندوری بین الاقوامی سطح کے شاعر ہیں اور ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں وہ بے حد مقبول ہیں۔ ان کے کورونا مثبت ہونے کی خبر سے پوری ادبی اور اردو دنیا میں تشویش میں مبتلا تھی لیکن کسی اس کا ذرہ برابر گمان نہیں تھا کہ وہ اس سے جانبر نہیں ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اردو زبان ہی کسی زبان میں اس طرح بے باک شاعر مشکل سے ہی ملے گا۔
واضحً رہے کہ گزشتہ دنوں راحت اندوری نے خود ٹوئیٹ کرکے کورونا سے متاثرہونے کی اطلاع دی تھی اور وہ مدھیہ پردیش میں اربندو اسپتال میں داخل تھے جہاں ان کا علاج چل رہا تھا جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔
راحت اندوری ادھر کافی دنوں سے سانس کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ اطلاعات کے مطابق انہیں ذیابیطس اور دل کا عارضہ بھی تھا۔ حال ہی میں نمونیا کے سبب ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہوگیا تھا۔راحت اندوری 4 ماہ سے اپنے گھر سے نہیں نکلے تھے۔ وہ صرف جانچ کے لئے ہی گھر سے باہر نکلتے تھے۔ انہیں چار پانچ دن سے بے چینی ہو رہی تھی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر پھیپھڑوں کا ایکسرے کرایا گیا تو نمونیا کی تصدیق ہوئی تھی۔ اس کے بعد سیمپل جانچ کے لئے بھیجے گئے تھے، جس میں وہ کورونا پازیٹیو پائے گئے۔
راحت اندوری کے ڈاکٹر روی ڈوسی نے بتایا تھا کہ ان کے دونوں پھپھڑوں میں نمونیا ہے، سانس لینے میں تکلیف کے سبب آئی سی یو میں رکھا گیا تھا، ان کو تین بار دل کا دورہ بھی پڑا تھا۔
راحت اندوری کی پیدائش یکم جنوری 1950 میں اندور میں ہوئی تھی۔ ان کی غزلیں اور نظمیں زبان زد عام تھیں اور انہیں ہندستان اور ہندستان کے باہر کی تمام اردو دنیا میں مشاعروںمیں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔
راحت اندوری نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ مقامی کالج میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ وہ ایک مصور بھی تھے اور فلموں کے لیے بھی کئی نغمے لکھے۔ ان کے انتقال پر زندگی کے ہر شعبے کے نمائندوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے دنیا سے چلے جانے کو علم و ادب کا بڑا نقصان قرار دیا۔
ان کے کچھ اشعار اس قدر مقبول ہیں کہ انہیں ہر جگہ پڑھا جاتا ہے اور کسی کو اپنی بات مضبوطی کے ساتھ کہنی ہوتی ہے تو راحت اندوری کے اشعار پیش کرتے ہیں۔