مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ وہ اگر مجاہد آزاد تھے تو ایک عالم دین بھی تھے۔ انہیں قرآن، فقہ، علم الکلام، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ ایک عظیم خطیب، زبردست صحافی، عالی مرتبت مجتہد، عظیم دانشور، بلند پایہ مفکر، فلسفی اور جنگ آزادی کے عظیم قومی رہنما تھے۔ آپ نے ملک کی آزادی کی جد وجہد میں بہت اہم رول ادا کیا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مولانا کی آزادی کے لئے کی جانے والی جدوجہد ان گنت نقوش مہاتما گاندھی جی پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ آپ نے اس ملک و قوم کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
مولانا ابوالکلام آزاد 11/ نومبر 1888ء کو دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ عربی آپ کی مادری زبان تھی۔ 1895ء میں وہ کلکتہ پہنچے۔ یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حافظہ اور ذہانت کی دولت سے نوازا تھا۔ انہوں نے تیرہ برس کی عمر میں فقہ، حدیث، منطق اور ادبیات پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ 1902ء تک آپ کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ مکمل ہوچکا تھا۔
نظریہ پاکستان کے مولانا جتنے مخالف تھے اتنے ہی متحدہ قومیت کے حامی تھے۔ ان کی نظر آزادی وطن کے حصول اور اس کی بقا کے لئے ہندومسلم اتحاد ہی نسخہ کیمیا تھا۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کی شدید مخالفت کی اور ہندو مسلم دونوں ہی کو ہندوستان میں شیر و شکر بن کر رہنے کی تاکید کی۔ انہیں اخوت و محبت اور بھائی چارگی کا درس دیا۔ ہندو مسلم اتحاد ان کی نظر میں کس قدر اہم تھا، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اتحاد کی قیمت پر آزادی قبول نہ تھی۔ چنانچہ 1933ء کی انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس دہلی میں آپ نے واضح طور پر فرمایا:
”ہندومسلم اتحاد کے بغیر ہمیں تو آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کرسکتے۔ آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سورج 24گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے کہ بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو میں سوراج سے دست بردار ہوجاؤں گا مگر اس سے دست بردار نہیں ہوں گا۔ کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوگی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔“
(خطبات آزاد، ص:۷۴)
محمد علی جناح کی قیادت والی مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعوی تھا۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ لیگ کا حامی تھا دوسری طرف کانگریس ہندؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ نمائندہ جماعت تھی۔ وہ متحدہ قومیت یا ہندو مسلم اتحاد کے نقطہ نظر کو مسلمانوں کے حق میں نامناسب سمجھتی تھی۔ مسلم لیگ کا ماننا تھا کہ ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمانوں کی ذاتی تشخص باقی نہیں رہے گی اور مسلمان اس بھیڑ میں کھو کر رہ جائیں گے۔ اس لئے پاکستان کے قیام کی ضرورت ہے۔ لیکن مولانا آزاد اس خیال کے سخت مخالف تھے۔
ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں مولانا نے اپنے تئیں کوششیں جاری رکھیں، انہوں نے ہر موقع پر قرآن کریم اور اسلامی اقدار اور روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان اور مسلمانوں کے تقدیر اور ان کا روشن مستقبل ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی میں مضمر ہے۔ 1923ء کے انڈین نیشنل کانگریس کے دہلی میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں یہی حقیقت واضح کی تھی کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر آزادی بھی نہیں مل سکتی ہے۔
مولانا ہمیشہ ایسے بیانات سے پرہیز کرتے جس سے ہندو مسلمان اتحاد پر ضرب پڑتی ہو اور ہر ایسے بیان کا سخت ترین نوٹس لیتے ہوئے ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لئے دیئے جاتے تھے۔ خواہ وہ بیان کانگریسی ہو یا مسلم لیگی، حتی کہ جناح ایسے نامناسب بیان دیتے تو مولانا اس کا سخت نوٹس لیتے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے 31/جولائی 1946 کو ہفت روزہ ”الہلال“ کا پہلا شمارہ شائع کیا۔ اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد قائم کرنا تھا۔ الہلال مسلمانوں کی ملی غیرت، ایمانی حرارت اور مذہبی حمیت کا بڑا محاذ بن گیا۔ الہلال میں ادبی، علمی، سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ سماجی، تہذیبی مسائل پر اظہار خیال ہوا کرتا تھا۔ مختصراً طور پر کہا جاسکتا ہے کہ الہلال نے اردو صحافت کو ایک نیا رستہ دکھایا۔ الہلال ہندوستان کا پہلا اخبار تھا جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے سیاسی اور غیر سیاسی مقاصد کی تکمیل اور اپنے اعمال میں اتباع شریعت کی تلقین کے ساتھ ساتھ ادبی، سماجی، علمی، سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس اخبار کے ذریعہ انگریزی حکومت کے خلاف بھی بہت سی باتیں تحریر کی جاتی ہیں۔ دھیرے دھیرے انگریزی حکومت اس سے بیزار ہوتے گئے اور الہلال پریس کو بند کردیا۔
”الہلال“ کے بند ہوجانے کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد نے ”البلاغ“ نام کا دوسرا اخبار جاری کیا۔ اس اخبار کا نام بدل دیا گیا تھا لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ اس میں ادب، تاریخ، مذہب اور معاشرت کے مسائل بیان کئے جاتے تھے۔ البلاغ کو مذہبی تبلیغ کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔ جنگ آزادی کی طویل جدوجہد میں جو شعلہ بیان مقرر پیدا ہوئے ان میں مولانا آزاد کا نام سرفہرست ہے۔ مولانا ایک بے باک مقرر تھے۔ وہ کسی موضوع پر بات کرتے تو ان کا ایک ایک حرف پروقار اور پرجلال ہوا کرتا تھا۔ آپ قارئین کی خدمت میں مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر کا ایک حصہ پیش کر رہا ہوں:
”اسلام کسی ایسے اقدار کو جائز تسلیم نہیں کرتا جو شخص ہو یا چند تنخواہ دار آفیسروں کی بیور کریسی ہو وہ آزادی اور جمہوریت کا ایک مکمل نظام ہے جو نوع انسانی کو اس کی چھنی ہوئی آزادی واپس دلانے کے لئے آیا ہے اور خدا کے سوا کسی انسان کو سزاوار نہیں کہ بندگان خدا کو اپنا محکوم اور غلام بنائے۔“
ڈاکٹر کیٹلر کے مطابق میں نے آج تک ایسا مقرر نہیں دیکھا۔ جس کی زبان میں مولانا آزادکی زبان سے زیادہ مٹھاس ہو۔ میں نے جب بھی ان کی تقریر سنی ہے ہر بار محسوس کیا ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر بول رہے ہیں ان کی زبان ان کے تابع ہوتی ہے۔ غالباً مولانا آزا د پہلے جلیل القدر مسلم رہنما تھے جنہوں نے اپنی زور قوت کے ساتھ ہندوستان کو متحدہ قومیت کا تصور پیش کیا۔ اور اسے ملک کے عوام اور خاص میں رائج و راسخ کرنے کے لئے اپنی تمام تر ذہنی و علمی اورا ستدلالی صلاحتیں صرف کردیں۔ وہ اس طرح سیاست کے میدان میں اپنی مستقل مزاجی کے ساتھ قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرکے حب الوطنی، قومی یکجہتی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مثالیں پیش کیں۔ مولانا کے کارناموں میں ”غبار خاطر“کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ”غبار خاطر“ مولانا کے اس خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے دوسری جنگ عظیم کی نظر بندی کے دوران مولانا حبیب الرحمن شیروانی کو لکھے۔ اس وقت مولانا آزاد احمد نگر کے قلعے میں قید تھے۔غبار خاطر مولانا آزاد کے پہلے خطوط کا مجموعہ تھا جسے حکیم اجمل خاں نے 1946کو ترتیب دیا تھا۔دوسرا مجموعہ کاروان خیال ہے،جسے شاہد خاں شیروانی نے شائع کیا تھا۔ان کے خطوط کا ایک اور مجموعہ برکات آزاد کے نام سے شائع ہوا جس میں مولانا سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریابادی، نیاز فتح پوری اور خواجہ حسن نظامی وغیرہ کے نام خطوط شامل ہیں۔ مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے آزادی کے لئے ایک حوصلہ مند سپہ سالار تھے۔ وہ کانگریس کے صدر بھی رہے۔ کانگریس کے لئے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک ملک و قوم کی خدمت کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ قوم کے سچے سپوت ہیں۔ مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا ”مولانا آزاد انڈین نیشنل کانگریس کے اعلیٰ ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے۔“
عالم اسلام خصوصاً ہندوستان کی یہ روشن ترین شمع ۲۲/ فروری ۸۵۹۱ء کو گل ہوگئی اور دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان انہیں سپرد لحد کیا گیا۔ ان کی اس خدمت کے لئے ہم انہیں اس شعر کے ساتھ یاد کرتے رہیں گے۔
بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے
ان مست نگاہوں کی ادا اور بھی کچھ ہے
٭٭
کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہوگیا
اس کے اٹھتے ہی دگر گوں رنگ محفل ہوگیا
٭٭٭
کاشانہئ فیض، فیض روڈ، سرائے ستار خاں، دربھنگہ
موبائل:9031201641