Masarrat
Masarrat Urdu

امریکہ میں صدارتی انتخابات کی فنڈنگ ایک پیچیدہ عمل

Thumb

                                 

جسے  امریکہ  میں فیڈرل گورنمنٹ  کہتے ہیں اسے ہندوستان میں سنٹرل گورنمنٹ یا مرکزی حکومت کہتے ہیں۔ امریکہ میں جب صدر کا انتخاب ہوتا ہے تو اس کے لئے امید واروں کو بہت زیادہ  ڈالر خرچ کرنا پڑ تاہے۔ جو خرچ اس الیکشن پر ہوتا ہے اسے کوئی عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی امیدوار چاہے کتنا ہی ایماندار ، قابل اور پر خلوص ہو مگر دولت خرچ کرنے کے قابل نہ ہو تو وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ بات ہر جگہ اور ہر ملک میں سچ ہے۔ اگر الیکشن لڑنا ہو توہرپارٹی کو اخباروں، ٹیلیو یژن ، پوسٹروں، کارکنوں، جلسوں،  میٹنگوں پر لاکھوں ڈالر خرچ کر نا ہو گا  اور ساتھ میں ان سب کاموں کو انجام دینے کے لئے ہر شہر میں والنٹیروں کو رکھنے کے لئے بھی خرچ کر نا ہو گا۔  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امیدوار کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو وہ  اتنا  خرچ اٹھا نہیں سکتا  تو پھر  یہ خرچ کیسے اٹھایا جاتا ہے۔ امریکہ میں فنڈ اکٹھا کرنا ایک آرٹ ہے جسے کچھ ماہرین کرتے ہیں میں نے دیکھا کہ وہاں مساجد بنانے یا انہیں رپیر کرنے کے لئے بھی فنڈ اکٹھا کرنے کے لئے اسکے تجربہ کار ماہرین کو کرایے پر بلایا جاتا ہے  اور وہ لوگ سامیعن کواپنے بیانوں کے ذریع ایسے جذباتی بناتے ہیں کہ وہ اپنے زیورات تک وہیں کے وہیں نکال کر دے دیتے ہیں۔ یہی فن سیاسی میٹنگوں اور جلسوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ہر میٹنگ اور جلسے پر ہزاروں لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اور ان کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔ بڑی بڑی  ملٹی نیشنل کمپنیوں  کے مالک اپنے آپ سے اپنے پسندیدہ امیدوار کو  چندہ دیتے ہیں اس امید پر کے  وہ اگر کامیاب ہو گیا تو انہیں گورنمنٹ کنٹراکٹس دے گا اور اس کے ذریعہ وہ ڈبل کمائی کر لیں گے  اور اثر و راسوخ بھی قائم ہو جائے گا۔عام انسان اس خیال سے چندہ دے گا کہ اسے بعد میں کچھ نہ کچھ عہدے یا رعایتیں مل جائیں گیں۔ 2020کے صدارتی الیکشن میں جو ٹرمپ    اور جو بیدن کے بیچ ہوا اس میں جملہ خرچ  14بلین ڈالر ہوا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ کہ ہر امیدوار نے سات بلین ڈالر خرچ کیےے۔ یہ سب فنڈ الیکشن فند کے نام پر اٹھایا گیا۔عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لئے امیدواروں کو کافی رقم خرچ کر نا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں پارلیمنٹ الیکشن پر ایک بلین سے کم خرچ ہوتا ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ امریکہ میں  صدارتی الیکشن لڑنا کتنا مہنگا ہے۔ اسی لئے کئی قابل ترین حضرات الیکشن نہیں لڑتے۔سب سے زیادہ خرچ میڈیا میں اشتہارات دینے پر اور انہیں تیار کرنے پر ہوتا ہے۔لوگوں کو ای میل بھیجنے اور ان سے ڈونیشنن مانگنے کے لئے بھی زیادہ خرچ آ تا ہے۔وہاں ووٹروں کو خریدا  نہیں جاتا بلکہ جو خرچ ہوتا ہے وہ امریکہ کے پچاس ریاستوں میں جلسے کرنے اور اشتہارات کے لئے ہوتا ہے۔ ہر ریاست میں جب تک مالدار حضرات آگے آ کر ڈالرس نہیں خرچ کرتے امیدوار اپنے صرف خاص سے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔جہاں اتنے سارے ڈالرس خرچ کر نا ہو وہاں جمہوریت بے معنی ہو کر رہ جا تی ہے۔  ہم دیکھ رہے ہیں کہ آجکل کی دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں جمہوریت کے نام پر مالداروں کا راج ہے۔Campaign finance laws  کے مطابق Fedral Election Commission ایک اہم  ڈپارٹمنٹ ہے جو اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ وہاں 6  فیڈرل کمیشنرس ہو تے ہیں۔ چونکہ وہاں دو پارٹیاں ہیں اس لئے ہر پارٹی سے تین کمشنر ہوتے ہیں اور فنڈنگ کے معاملہ میں ووٹنگ کے ذرعہ فیصلے لیے جاتے ہیں۔ اگر کسی بھی معاملہ میں تین ادھر اور تین ادھر ہو تے ہیں تو فیصلہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہ کمیشن اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ کون کتنا فنڈنگ کر رہا ہے اور اسے کیسا خرچ کیا جا رہا ہے اور کہاں قانون کے خلاف چندہ لیا جا رہاا ہے اور کہاں قانون کے خلاف خرچ کیا جا رہا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک  کے مقابلے میں امریکہ میں ہر شہری اس پر گہری نگاہ رکھتا ہے اور قانون کے خلاف ہونے پر رپورٹ کر دیتا ہے۔ ایسا دوسرے ممالک میں نہیں ہوتا۔فیڈرل قانوں ان پر لاگو ہوتا ہے جو فیڈرل الیکشن لڑتے ہیں اور جہاں تک ریاستی الیکشن ہیں وہاں ریاستوں کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ایک خاص بات یہ ہے کہ وہاں فنڈنگ پر کوئی حد نہیں ہے۔ آپ جتنا چاہے چندہ دے سکتے ہیں۔وہاں فنڈنگ کرنے کے لئے کئی Political Action  Committees بنائی جاتی ہیں ۔ یہ کمیٹی کچھ لوگوں کا ایک گروپ ہوتا ہے جو اپنی طرف سے امیدواروں کو فنڈنگ کر نے کے لئے بنا ئے جاتے ہیں ۔ یہ لوگوں سے اپنی جانب سے چندہ جمع کر کے  اپنی پسند کے امیدوار کو دیتے ہیں اور ہر معاملہ میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ وہاں Super Political Action Committees   ہوتی ہیں جو محنت کر کے چندہ تو جمع کرتے ہیں مگر اسے امیدواروں کو نہیں دیتے بلکہ وہ اپنی مرضی سے جیسا  چاہے ویسا الیکشن پر خرچ کرتے ہیں ۔  2002میں امریکہ میں  20476ایسی کمیٹیاں تھیں۔PAC کے لئے چندہ کرنے کے لئے حد مقرر ہے مگر Super PAC کے لئے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ حکومت بھی امیدوار کو فنڈنگ کرتی ہے مگر اس ایک پارٹی کے ایک امیدوار کو جو امریکہ کے پچاس ریاستوں میں سے  20  ریاستوں میں ہر ریاست سے  5   ملین ڈالر فنڈ حاصل کرتا ہے۔یہاں فند کرنے والے شخص  کو صرف  250 ڈالر کے حساب سے فنڈنگ کرنا ہو گا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امیدوار خود یا کوئی اس کا ہمدرد اپنی طرف سے زیادہ فنڈنگ کر دیتا  اور  5 ملین ڈالر کا حساب پورا کر دیتا.۔ امریکہ میں صدر کے الیکشن کے لئے ہر شہری ہندوستان کی طرح ووٹ نہیں ڈالتا بلکہ کچھ لوگوں کو الیکشن کے ذریعہ چنا جاتا ہے اور وہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ جو امیدوار  270 ووٹ حاصل کرتا ہے وہ صدارتی الیکشن جیت جاتا ہے۔  ایک رپورٹ میں کہتے ہیں کہ ہندوستان میں جو  2019 کا پارلیمنٹ  الیکشن ہوا وہ سب سے قیمتی الیکشن تھا جس میں   600 بلین روپیے خرچ ہوے یعنی 8 بلین  ڈالرس۔کہتے ہیں کہ بی جے پی نے تمام پارٹیوں سے زیادہ خرچ کیا۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں نہ فنڈنگ کر نے پر حد مقرر ہے اور نہ ہی خرچ کرنے پر۔ جو چاہے جتنا چندہ دے سکتے ہیں اور امیدوار جتنا چاہے خرچ کر سکتے ہیں ۔ وہ ممالک ہیں ڈینمارک، جرمنی نیدر لینڈ، نارواے، اسپین، سویڈن، سوٹزرلینڈ اور ترکیہ۔امریکہ میں اس سلسلہ میں دیگر کئی پیچیدگیاں ہیں جو آسانی سے سمجھ میں نہیں آتے۔جب بھی کوئی نیا صدر امریکہ میں آتا ہے تو وہ قریبا   20,000اپنے ساتھیوں اور ہمدردوں کو سرکار میں اہم عہدے سونپ دیتا ہے۔ہر ڈپارٹمنٹ کے وہ سربراہ ہو جاتے ہیں۔ الیکشن میں فنڈنگ کے لئے یہ بھی ایک سبب ہے۔ہر دو برس میں کانگریس کا الیکشن ہو تا ہے جس میں 1/3ممبر ریٹائر ہوتے ہیں اور دوسروں کا الیکشن ہوتا ہے۔وہاں عوام کو ڈالر دے کر ووٹ نہیں خریدے جاتے بلکہ بڑی بڑی ہوٹلوں میں لاکھوں ڈالر کی دعوتوں پر میٹنگیں کی جاتی ہیں اور پرچار کیا جاتا ہے۔
، بنگلور۔ فون :9980827221

Ads