جاری ریلیز کے مطابق معاصر تحقیق و تنقید:سمت و رفتار‘ کے عنوان سے منعقدہ مذاکرے میں پروفیسر قمرالہدی فریدی (صدر شعبہئ اردو، اے ایم یو)، ڈاکٹر جمیل اختر (معروف ناقد)، پروفیسر محمد علی جوہر اور پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی (شعبہئ اردو، علی گڑھ) شریک ہوئے۔ مقررین نے موجودہ دور کی تحقیق و تنقید کے بدلتے رجحانات اور مسائل پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہا کہ معاصر تحقیق نئے نظریاتی مباحث اور تکنیکی تبدیلیوں کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اس لیے محققین کو بین العلومی نقطہئ نظر اپنانا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ معیاری تحقیق کے لیے مطلوبہ وسائل و اخلاقیات کو اپنائے بغیر موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر جمیل اختر نے کہا کہ مولوی عبدالحق اردو کے اولین محقق و ناقد تھے، جن کے طریقہئ تحقیق کو بروئے کار لاکر موجودہ دور کے محققین بھی عمدہ تحقیق کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ قومی اردو کونسل نے اردو کے کلاسیکی ادب کے سرمائے کو محفوظ کرنے کی قابل تحسین کوشش کی ہے۔ پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ معیاری تحقیق وہ ہوتی ہے جو اپنے عہد کے فکری، تہذیبی اور علمی سوالات کا واضح جواب فراہم کرے۔ پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی نے کہا کہ تحقیق نہایت سنجیدہ اور مشکل کام ہے، جس کا حق ادا کرنے کے لیے اعلی درجے کی سنجیدگی، وسعتِ مطالعہ اور علم و تحقیق کے تئیں غیر معمولی دلچسپی درکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج کل رسائل میں شائع ہونے والے اکثر مضامین تنقید کے دائرے میں آتے ہیں، تحقیقی مضامین بہت کم لکھے جارہے ہیں۔ اس مذاکرے کے موڈریٹر ڈاکٹر فیضان الحق تھے۔
'اردو میں سائنسی ادب' کے موضوع پر آج کا دوسرا مذاکرہ منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر عبدالمعز شمس (معروف ماہرِ امراضِ چشم اور ادیب)، ڈاکٹر فائزہ عباسی (ڈائریکٹر HRDC)، اور عادل فراز شریک ہوئے جبکہ مذاکرے کی موڈریشن کے فرائض ڈاکٹر حسینہ خانم نے انجام دی۔ ڈاکٹر عبدالمعز شمس نے کہا کہ طب، حیاتیات اور جدید سائنسی تحقیق پر موجود مواد کو سادہ اور بامحاورہ اردو میں پیش کیا جائے تاکہ عام قارئین میں سائنسی شعور پروان چڑھے۔ انھوں نے کہا کہ نئی نسل کو اردو میں معیاری سائنسی مواد فراہم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فائزہ عباسی نے کہا کہ اردو میں سائنسی اصطلاحات کو معیاری بنانے اور جدید سائنسی مباحث کو مقامی تناظر میں سمجھانے کے لیے ادارہ جاتی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے تعلیمی اداروں سے اپیل کی کہ نصاب میں اردو سائنسی لٹریچر کو جگہ دی جائے تاکہ طلبہ دونوں زبانوں میں مہارت حاصل کرسکیں۔ عادل فراز نے کہا کہ اردو میں سائنسی ادب کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اردو کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری میں سائنسی اشارے ملتے ہیں۔ ٹیکنالوجی، ماحولیات، فلکیات اور مصنوعی ذہانت سے اردو اب نا آشنا نہیں ہے۔
اس سے قبل 'انگریزی شاعری پر مخلوط ثقافت اور زبان کا اثر' کے عنوان سے بھی ایک اہم مذاکرہ منعقد ہوا جس میں پروفیسر ثمینہ خاتون (صدر شعبہئ انگریزی، اے ایم یو)، پروفیسر عائشہ منیرہ اور پروفیسر فضا تبسم اعظمی نے بطور پینلسٹ شرکت کی۔ نظامت مدیحہ ناز اور زنیرہ حبیبہ نے کی، جب کہ شکریہ کی رسم احمد مجتبیٰ صدیقی نے ادا کی۔ پروفیسر ثمینہ خاتون نے کہا کہ انگریزی شاعری پر ہندوستانی تہذیب و زبان کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، کیونکہ کسی بھی صنفِ سخن پر مختلف ثقافتوں کا اثر پڑنا فطری ہے۔ انھوں نے کہا کہ اچھا ادب انسان میں دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔پروفیسر عائشہ منیرہ نے کہا کہ غزل کی صنف ہندوستان میں بے حد مقبول ہے، چاہے وہ اردو میں ہو یا انگریزی میں۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزی ادب و شاعری بھی دوسری زبانوں کے اثرات قبول کرتی ہے گرچہ انگریز اس بات سے بالکل انکار کرتے ہیں کہ ان کی شاعری بھی کسی دوسری زبان سے متاثر ہوئی ہے۔پروفیسر فضا تبسم اعظمی نے کہا کہ انگریزی عالمی زبان ہے اور یہ ہمیں پوری دنیا سے جوڑتی ہے۔ مخلوط ثقافتی اثرات نے انگریزی شاعری کو نئی وسعت اور ہم آہنگی سے ہم کنار کیا ہے۔
کتاب میلے کے چوتھے دن بھی شائقین کی خاصی بھیڑ رہی۔ یونیورسٹی اور شہر کے اطراف و اکناف سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکا نے کتابوں کی موضوعاتی بوقلمونی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے اس قدم کی ستائش کی کہ اس نے اہم کتابوں تک رسائی کا نہایت مؤثر ذریعہ فراہم کیا ہے۔
