بچوں کی کہانی
میرے جونیئر ہائی اسکول کے استاذ مرحوم عبدالہادی صاحب نے سن 1961 کا ایک سچا واقعہ سنایا تھا، جو آج بھی اسی طرح میری یادوں میں محفوظ ہے۔
ضلع بجنور (اتر پردیش) کا ایک چھوٹا سا گاؤں،جہاں زیادہ تر آبادی ہندوؤں کی تھی اور چند مسلم خاندان بھی وہاں رہتے تھے۔اس گاؤں میں ایک مسجد بھی تھی، جہاں باقاعدگی سے اذان اور نماز ادا کی جاتی تھی۔ گاؤں کے لوگ آپس میں میل جول، محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے۔ سب ایک دوسرے کے کام آتے اور دکھ سکھ میں شریک رہتے۔
پھر کچھ یوں ہوا کہ مسلم خاندان آہستہ آہستہ گاؤں چھوڑ کردوسرے مقامات پر جا بسے۔ ان کے ہجرت کرنے کی وجہ کوئی جھگڑا یا فساد نہیں تھا، بلکہ محض اتفاقی طور پر حالات و ضروریات کی بنا پر ایسا ہوتا چلاگیا۔
اتفاق سے کچھ عرصے بعد اسی گاؤں میں طاعون کی وبا پھیل گئی اور بہت سے لوگ اس بیماری کے شکار ہو کر فوت ہوگئے۔ گاؤں کے لوگ اس صورتحال سے سخت پریشان ہوئے اور آخر کاروبا کی وجوہات پر غور کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی۔
طویل بحث و مباحثے کے بعددرمیان سے ایک بزرگ شخص اٹھے اور بولے:
’’بھائیو! ہمارے گاؤں میں اس سے پہلے کبھی ایسی وبا نہیں پھیلی۔ ہم اپنے سارے مذہبی و اخلاقی کام ہمیشہ کی طرح کرتے رہے ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن ایک کام جو پہلے گاؤں میں ہوا کرتا تھا، اب کچھ عرصے سے بند ہو گیا ہے۔‘‘
لوگوں نے پوچھا: ’’وہ کون سا کام ہے؟‘‘
بزرگ نے کہا:
’’اذان — مسجد سے اذان کی آواز، جو پہلے دن میں پانچ بار گونجتی تھی۔ جب سے مسلمان یہ گاؤں چھوڑ کرچلے گئے ہیں، اذان کی یہ آواز آنا بند ہو گئی ہے۔‘‘
میٹنگ میں موجود تمام لوگوں نے بزرگ کی بات کی تائید کی۔ سب نے محسوس کیا کہ واقعی گاؤں سے وہ مانوس آواز غائب ہو گئی ہے جو کبھی سکون و برکت کی باعث تھی۔
چنانچہ اسی وقت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کا کام ہی یہ تھا کہ گاؤں چھوڑ کر گئے مسلم خاندانوں کو واپس بلایا جائےتاکہ مسجد دوبارہ آباد ہو جائے اور گاؤں میں پھر سے اذان کی آواز گونجنے لگے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ گاؤں کے بیشتر مسلم خاندان اپنے پرانے پڑوسیوں کے اصرار پر واپس آ گئے۔ مسجد دوبارہ آباد ہو گئی اور کچھ ہی دنوں میں اذان کی روح پرور آواز ایک بار پھر گاؤں میں گونجنے لگی۔ یوں گاؤں میں صرف ایک آواز نہیں لوٹی، بلکہ محبت، یگانگت اور بھائی چارے کی روح بھی واپس آ گئی۔
