انہوں نے کہا کہ ان کا کمال یہ تھا کہ دقیق فلسفیانہ مسائل کو بھی پانی کر دیتے تھے۔ انھوں نے محمد حسین آزاد کی علمی بصیرتوں اور نثری بوالعجبیوں پر مفصل بحث کرتے ہوئے کہا کہ محمد حسین آزاد کی زندگی پر ۱۸۵۷ء کی پرآشوب صورت حال کے نہایت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ پروفیسر خالد علوی نے بتایا کہ محمد حسین آزاد کی کتاب دربارِ اکبری اردو نثر کی شاہکار ہے۔ وہ ایک ایسے عجوبۂ روزگار تھے جنھوں نے ذہنی خلل کے زمانے میں ۸۹؍ کتابیں لکھیں۔ ان کا ذہن واقعات کا ایک انسائیکلوپیڈیا تھا۔ محمد حسین آزاد کا کمال یہ ہے کہ سرتاسر افسانہ طرازیوں کے باوجود ان کا شمار تاحشر معجز قلم نثرنگاروں میں ہوتا رہے گا۔
اس یادگاری خطبے کی صدارت صدر شعبہ پروفیسر کوثر مظہری نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ محمد حسین آزاد کے پاس جو زبان و اسلوب ہے اس میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ بعد کے زمانے میں ان کی تحریروں پر تحقیق و تنقید کی عمارتیں قائم ہوئیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ محمد حسین آزاد کے حوالے سے جو منفی باتیں کی جاتی ہیں وہ دراصل اثبات ہے ان کی علمی، لسانی، تحقیقی اور تنقیدی شخصیت کا۔
خطبے کی نظامت کے فرائض، اس کے کنوینر ڈاکٹر شاہ عالم نے انجام دیتے ہوئے مہمان مقرر کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ صدرِ شعبہ پروفیسر کوثر مظہری نے پروفیسر خالد علوی کا استقبال گلدستے سے کیا۔ جلسے کا آغاز ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت اور اختتام ڈاکٹر محمد مقیم کے اظہارِ تشکر پر ہوا۔ اس موقع پر پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر راحین شمع، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر مخمور صدری، ڈاکٹر خان رضوان، ڈاکٹر راحت افزا اور ڈاکٹر ثاقب فریدی کے علاوہ بڑی تعداد میں اساتذہ، ریسرچ اسکالر اور طلبا و طالبات موجود تھے۔
