Masarrat
Masarrat Urdu

سپریم کورٹ کا عبوری فیصلے میں وقف ترمیمی قانون کو مکمل رد کرنے سے انکار، بعض دفعات پر روک

Thumb

نئی دہلی، 15 ستمبر (مسرت ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے پیر کے روز وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 پر اپنے عبوری فیصلے میں متنازعہ قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرنے سے انکار کر دیا، البتہ حتمی فیصلہ آنے تک بعض دفعات پر روک لگادی۔

چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے آج متعلقہ قانون میں ترمیم کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر عبوری حکم جاری کیا۔

بنچ نے کہا کہ عدالتوں کو پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کی درستگی کو تسلیم کرنا چاہئے اور صرف نادر ترین مقدمات میں ہی اسٹے دینا چاہئے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا، "ہم نے ہر دفعہ کو دیے گئے چیلنج پر بادی النظر میں غور کیا ہے۔ ہم نے پایا ہے کہ قانون کی تمام دفعات کو روکنے کا کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔ تاہم، بعض دفعات میں کچھ تحفظ کی ضرورت ہے۔"

بنچ نے کہا کہ کلکٹر کو شہریوں کے ذاتی حقوق کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے اور یہ اختیارات کی تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔

اس طرح عدالت نے سرکاری افسر کے ذریعہ وقف املاک کا تعین کرنے کی دفعہ پر روک لگا دی۔ بنچ نے کہا کہ سرکاری اہلکار یہ فیصلہ نہيں کرسکتے ہيں کہ آیا کوئی وقف جائداد سرکاری زمین پر واقع ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے 128 صفحات پر مشتمل عبوری فیصلے میں غیر مسلموں کی شمولیت کے حوالے سے کہا کہ اگرچہ یہ عدالت کوئی ہدایت جاری نہیں کر رہی ہے لیکن یہ مناسب ہوگا کہ سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ کے 22 اور 11 ارکان میں بالترتیب چار اور تین سے زیادہ غیر مسلم ارکان نہ ہوں۔

عدالت عظمیٰ نے یہ بات غیر مسلموں کی بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر تقرری کی اجازت دینے والی ترمیم پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہی۔ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی بعض دفعات کے نفاذ پر روک لگاتے ہوئے وقف کے تحت جائیداد عطیہ کرنے کے لیے پانچ سال سے مسلم ہونے کے اہلیتی معیار کی دفعہ پر بھی روک لگادی۔

عدالت نے کہا کہ بغیر کسی طریقہ کار کے یہ (سیکشن) منمانے طور پر طاقت کے استعمال کو فروغ دے گا۔

وقف اداروں میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کے معاملے میں بنچ نے کہا کہ فی الحال ریاستی وقف بورڈ میں تین سے زیادہ غیر مسلم ارکان کو شامل نہیں کیا جانا چاہئے اور مرکزی وقف کونسل میں مجموعی طور پر چار سے زیادہ غیر مسلم ارکان کو شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔

عدالت نے 22 مئی کو ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے بعد عبوری روک لگانے کی درخواست پر اپنا حکم محفوظ رکھ لیا تھا۔ اس وقت عدالت نے اوقاف کے رجسٹریشن سے متعلق دفعہ پر روک لگانے سے انکار کردیا تھا۔

25 اپریل کو عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران، مرکزی وزارت اقلیتی امور نے ترمیم شدہ وقف ایکٹ 2025 کا دفاع کرتے ہوئے ابتدائی حلف نامہ داخل کیا تھا۔ مرکز نے پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ آئینی حیثیت کے حامل کسی بھی قانون پر عدالت کی طرف سے مکمل روک لگانے کی مخالفت کی تھی۔ سپریم کورٹ نے تین دن تک دلائل سنے، جس میں مرکز نے دلیل دی کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ وضع کردہ قانون کے نفاذ کو روکنے کے لئے محض قانونی تجاویز یا فرضی دلائل کافی نہیں ہیں۔

مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دعویٰ کیا تھا کہ وقف انتظامیہ نے محکمہ آثار قدیمہ کے تحت یادگاروں کا غلط استعمال کیا ہے۔ اس نے دکانوں کے لیے جگہ بنائی تھی اور غیر قانونی تبدیلیاں کی تھیں۔

مرکزی حکومت نے قبل ازیں یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی بھی وقف املاک (بشمول موروثی وقف املاک) کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ سنٹرل وقف کونسل یا ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تقرری نہیں کی جائے گی۔

ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں 100 سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 5 اپریل کو وقف (ترمیمی) بل 2025 کو اپنی منظوری دے دی، جسے پہلے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں طویل بحث کے بعد پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔

 

Ads