جسٹس دیپنکر دتہ اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا اور اپنے فیصلے میں چھ اہم نکات طے کیے۔
بنچ نے تمام متعلقہ فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد 30 جولائی کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔
جسٹس دتہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کی تفتیش کے لیے بنائی گئی داخلی جانچ کمیٹی اور اس کی کارروائی غیر قانونی نہیں تھی۔ داخلی کارروائی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور یہ کوئی متوازی یا آئینی دائرہ سے باہر کی کارروائی نہیں ہے۔
بنچ نے کہا کہ کارروائی کے دوران جسٹس ورما کے رویے سے اعتماد پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود داخلی جانچ میں شریک ہوئے تھے۔
عدالت نے کہا، "ہم نے مانا ہے کہ چیف جسٹس اور داخلی کمیٹی نے تصاویر اور ویڈیوز کو (سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر) اپ لوڈ کرنے کے علاوہ پوری کارروائی کو ایمانداری سے مکمل کیا۔" عدالت نے تاہم کہا کہ اس عمل سے بچا جا سکتا تھا۔
عدالت نے مزید کہا، "چیف جسٹس (سپریم کورٹ کے) کی جانب سے وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ کو خط بھیجنا ( عہدے سے ہٹانے کے سلسلے میں) غیر آئینی نہیں تھا۔"
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی طرف سے جسٹس کو ہٹانے کی سفارش سے قبل سماعت کا موقع نہ دینا کسی قانونی عمل کی خلاف ورزی نہیں ہے کیونکہ ایسی سماعت کو کوئی بنیادی حق نہیں مانا جا سکتا۔
بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت کو اس راستے پر احتیاط سے چلنا ہوگا تاکہ مستقبل کی کسی بھی کارروائی میں کوئی بھی تبصرہ جج کے تئیں تعصب پیدا نہ کرے۔