نئی دہلی، 2 مئی (مسرت ڈاٹ کام) ملک کے سیاسی پس منظرمیں جمعیۃعلماء ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے ساتھ دو روزہ اہم نمائندہ اجتماع 3 /مئی سے نئی دہلی میں منعقدہورہاہے، اس اجلاس میں ملک کی تمام ریاستوں کے صدورونظماء اعلیٰ، ذمہ داران اوردیگر مندوبین شریک ہورہے ہیں۔
آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق وقف قانون کے سلسلے میں قانونی جدوجہد، پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ، ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت،مذہب کی بنیادپر مساجد، مدارس اورمکانات کو سپریم کورٹ کے گائیڈلائن کے باوجود غیر قانونی کہہ کر بلڈوز کرنا سمیت دوسرے سلگتے ہوئے مسائل اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ جمعیۃعلماء ہند ملک کی سب سے بڑی اورسب سے زیادہ سرگرم رہنے والی تنظیم ہے، اس کے پاس ملک وقوم کی خدمت کا ایک شانداراورقابل فخرماضی بھی ہے۔ ہماراملک ایک جمہوری ملک ہے، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے، حب الوطنی اوراتحادکو برقراررکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ پیارومحبت کے ساتھ رہتے آئے ہیں، اس کی بنیادی وجہ ہماراآئین ہے اوریہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غلامی سے آزادی کے بعد ملک کی آئین سازی میں جمعیۃعلماء ہند کا بنیادی کرداررہاہے، ملک کی آزادی کی جدوجہدمیں بھی جمعیۃعلماء ہند نے جو کلیدی کرداراداکیاہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ریلیز کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت اورفرقہ واریت کو شکست دینے سیکولرازم کو مضبوط کرنے اورآئین وجمہوریت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ہر سطح پر جدوجہد کرنا جمعیۃعلماء ہند اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے۔ جمعیۃعلماء کثرت میں وحدت اوروحدت میں کثرت کے فلسفہ میں یقین ہی نہیں رکھتی بلکہ مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر لوگوں کی مدداوررہنمائی میں نہ صرف یقین رکھتی ہے بلکہ اپنے کرداروعمل سے اس کا مظاہرہ بھی کرتی آئی ہے، جمعیۃعلماء ہند منافرت اورفرقہ پرستی کو ملک کے اتحادوسلامتی کے لئے ایک بڑاخطرہ تصورکرتی ہے۔ امن واتحاد، رواداری اس ملک کی روشن روایت رہی ہے مگر اب کچھ طاقتیں اقتدارکے زعم میں صدیوں پرانی اس روایت کو ختم کرنے کے درپے ہیں، امن واتحادسے زیادہ انہیں اپنا سیاسی مفاداوراقتدارعزیزہے۔
جمعیۃعلماء ہند کے نزدیک دہشت گردی خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوانتہائی ناپسندیدہ اورقابل مذمت عمل ہے، پہلگام میں ہوئے دہشت گرانہ حملہ کے بعد اپنے ایک بیان میں صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کے لئے کوئی جگہ نہیں اورجو لوگ ایساکرتے ہیں وہ کچھ اورہوسکتے ہیں، مگر انسان نہیں ہوسکتے، بے گناہوں کو قتل کرنے کی اجازت دنیا کی کسی بھی مذہب میں نہیں ہے۔ٓاسلام میں توکسی بے گناہ انسان کے قتل کو ایک پوری نسل کے قتل کے مترادف کہا گیا ہے، تاہم اس واقعہ کے بعد ملک کے میڈیانے جس طرح اس کو مذہبی رنگ دینے کی خطرناک سازش کی مولانا مدنی نے سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے اورکہا ہے کہ حملہ کے دوران اپنی جان کی پروانہ کرتے ہوئے مذہب سے بالاترہوکر کس طرح مقامی لوگوں نے دہشت گردوں سے سیاحوں کوبچایااورزخمیوں کو اپنی پیٹھ پر لادلادکر اسپتال پہنچایا اس جذبہ کی ستائش ہونی چاہئے، ان لوگوں نے جو کچھ کیا وہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ کشمیر کے عوام دہشت گردی کے خلاف ہیں اورامن واتحادکے خواہشمندہیں، مجلس عاملہ کے اجلاس میں اس دہشت گردانہ حملہ اورحملہ کے بعد پیداہوئی صورتحال پر سنجیدگی سے غوروخوض ہوگا۔ نئے وقف قانون کے تعلق سے جمعیۃعلماء ہند عوامی اورقانونی سطح پر جو جدوجہد کررہی ہے اس کی تفصیل آئے دن اخباروں میں آتی رہتی ہیں جمعیۃعلماء ہند اس قانون کو غیر آئینی اورمذہبی امورمیں صریحامداخلت تصورکرتی ہے، اس کا مانناہے کہ اس قانون سے اوقاف کا تحفظ نہیں ہوسکتااس کے برخلاف اگر یہ قانون باقی رہاتو پھر پورے ملک میں مسلمانوں کے اوقاف بربادہوجائیں گے، صدرجمہوریہ کے دستخط کے بعد اس قانون کے خلاف جمعیۃعلماء ہند نے ہی سب سے پہلے رٹ پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی تھی، ۵مئی کو جن پانچ پٹیشن پرسماعت ہونی ہے ان میں جمعیۃعلماء ہند کی پٹیشن پہلے نمبر پر ہے، صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی کی طرف سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اس اہم مقدمہ میں پیروی کریں گے، اجلاس کے دوران وقف قانون کے مختلف پہلوں اورجمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد پر ان شاء اللہ تفصیلی گفتگوہوگی اس کے علاوہ دیگر اہم مسائل بھی زیربحث آئیں گے۔اورآگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔