یہ مطالبہ صدر جمعیۃعلماء ہند (محمود) مولانا محمود اسعد مدنی نے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا انتہائی اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
اس قانون پر روشنی ڈالتے ہوئےکہا کہ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ہم نے اس طرح کے ظلم و ناانصافی کے خلاف پہلے بھی لڑائی لڑی ہے، اور آئندہ بھی لڑیں گے۔ اس ملک کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی گئی تھی،وہ برابری، انصاف اور آزادی کے ضامن ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ان بنیادوں کو متزلزل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میرے یہ الفاظ صرف سنے نہ جائیں، بلکہ محسوس کیے جائیں۔ یہ میری کمیونٹی کے درد اور جذبات کی ترجمانی ہے۔ امید ہے کہ ملک کی قیادت، میڈیا، اور عام لوگ اس آواز کو سنیں گے اور اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے وقف ایکٹ کے خلاف تجویز منظور کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ آئین ہند کی متعدد دفعات 14، 15، 21، 25، 26، 29 اور 300-اے کے خلاف ہے۔ اس کا سب سے نقصان دہ پہلو ’وقف بائی یوزر‘ کی تنسیخ ہے، جس سے تاریخی مذہبی مقامات کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ان کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے۔ مرکزی وقف کونسل و ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت، مذہبی امور میں کھلی مداخلت اور آرٹیکل 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون اکثریتی تسلط کی علامت ہے جسے ہم سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
مجلس عاملہ واضح کرتی ہے کہ موجودہ حکومت دستورکی روح اور آئینی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ایک پوری کمیونٹی کو حاشیہ پر ڈالنے، ان کی شناخت مٹانے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وقف ایکٹ 2025 کو فوراً واپس لیا جائے۔ وقف اسلامی شریعت کا بنیادی حصہ اور ایک دینی عبادت ہے، اس میں ایسی کوئی ترمیم قابل قبول نہیں جو اس کے مذہبی کردار و شرعی بنیاد کو متاثر کرے۔ ترمیم صرف انتظامی بہتری کے لیے ہونی چاہیے۔
مجلس عاملہ حکومت اور اپوزیشن کے گمراہ کن بیانات کی مذمت کرتی ہے اور میڈیا میں پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کے خلاف صحیح صورتِ حال پیش کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ پرامن احتجاج ایک آئینی حق ہے۔ احتجاج روکنا، قانونی کارروائی کرنا یا تشدد کا سہارا لینا قابل مذمت ہے، جبکہ احتجاج کے دوران تشدد کرنا بھی افسوسناک ہے۔ ایسے عناصروقف تحریک کو کمزور کر رہے ہیں۔
مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس اتراکھنڈ میں دینی مدارس کو سیل کرنے کے سرکاری اقدام کو آئین کی شدید خلاف ورزی قرار دیتا ہے اور اس کی سخت مذمت کرتا ہے۔ دینی مدارس آزادی کے بعد سے ہی آزادانہ حیثیت میں قائم ہیں، اور آئین ہند کی دفعہ 30 کے تحت سبھی طبقات کو ایسے ادارے قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ حال میں سپریم کورٹ نے بھی اس آئینی حیثیت کو تسلیم کیا ہے، اس کے باوجود اتراکھنڈ حکومت کا رویہ آئینی وعدوں کے برخلاف ہے۔مجلس عاملہ حکومت اتراکھنڈ کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ آزاد مدارس کو قدغن لگانے سے باز آئے اور سیل کیے گئے مدارس کو بحال کرے۔ بصورت دیگر جمعیۃ علماء ہند قانونی اقدام کرنے پر مجبور ہوگی۔
مجلس عاملہ نے اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ اور مسلم پرسنل لاء کے خاتمے کو مذہبی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ دیگر ریاستوں میں بھی ایسی کوششیں عوامی تشویش کا باعث بن رہی ہیں۔ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا نہیں، بلکہ ملک کے تمام سماجی و تہذیبی گروہوں کا مسئلہ ہے۔ ہماری تکثیریت کو نظر انداز کرکے بنایا گیا کوئی بھی قانون ملک کی وحدت اور سالمیت پر اثر انداز ہوگا۔مسلمانوں کی شریعت سے حساسیت اس کی ہمہ گیر حیثیت اور خدائی احکامات پر مبنی ہونے کی وجہ سے ہے، جن میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنا جمہوریت اور آئینی ضمانتوں کے خلاف ہے، جو دستور ہند کی دفعات 25 تا 29 میں دی گئی ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کی جانب سے بلڈوزر کارروائیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ کسی بھی انہدام سے قبل قانونی عمل، نوٹس اور متاثرہ فریق کو سننے کا موقع فراہم کرنا ضروری ہے، لیکن حالیہ کارروائیاں ان اصولوں کو نظرانداز کرتی ہیں، خاص طور پر کمزور طبقوں کے خلاف۔ مجلس عاملہ نے ان کارروائیوں کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ آئینی ادارے ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق جوابدہ بنایا جائے۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور جنگی جرائم کے بارے میں بھی شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مجلس عاملہ نے اسرائیلی اقدامات کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دیا اور مطالبہ کیا وہ انسانی بنیادوں پر فوری مداخلت کرتے ہوئے جنگ بندی کو یقینی بنانے میں فعال کردار ادا کرے بالخصوص زخمی فلسطینیوں کے علاج و معالجہ کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرے اور غزہ میں محصور فلسطینی عوام تک بنیادی انسانی ضروریات پہنچانے کی ہر ممکن کی جائے ۔
جمعیۃ علماء ہند کی ممبر سازی مہم میں توسیع کی گئی ہے، جس کا دورانیہ پہلے یکم اپریل کو ختم ہورہا تھا اب 31 جولائی تک بڑھا دیا گیا ہے اور مقامی و ضلعی انتخابات یکم اگست یا 31 اگست تک ہوں گے، جبکہ صوبائی انتخابات یکم ستمبر تا ۳۰ ستمبر کےد وران ہوں گے۔مجلس عاملہ نے اس موقع پر مولانا صدیق اللہ چوھردی کے داماد مفتی لیاقت علی قاسمی اور مولانا غلام مولانا غلام قادر صاحب کے جواں سال فرزند جناب عبدالرشید بانڈے ،مولانا یحیی کریمی میوات کی والدہ محترمہ کے انتقال پر بھی تعزیت کا اظہار کیا۔ ابتداء میں ناظم عمومی جمعیۃعلماءہندمولانا محمد حکیم الدین قاسمی نے سابقہ کارروائی کی خواندگی کی۔
اجلاس میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی اور ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی کے علاوہ نائب صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمد سلمان بجنوری ، مولانا مفتی احمد دیولہ ، نائب امیر الہند مفتی سید محمد سلمان منصورپوری ، مولانا رحمت اللہ کشمیری ،مولانا نیاز احمد فاروقی، حاجی محمد ہارون بھوپال، مولانا محمد عابد قاسمی دہلی، حاجی محمد حسن تامل ناڈو، مولانا محمد ابراہیم کیرالا، مفتی محمد جاوید اقبال کشن گنج، مولانا محمد ناظم پٹنہ، مفتی حبیب الرحمن الہ آباد، مولانا یحییٰ کریمی میوات، مولانا رفیق احمد بڑودہ، پروفیسر نثار انصاری احمد آباد، مولانا صدیق اللہ چودھری بنگال، امیر شریعت آسام مولانا مفتی یحییٰ باسکنڈی آسام، مفتی عبد السلام بنگال، مولانا عبد القادر آسام، مولانا غلام قادر صاحب پونچھ، مولانا محمد عاقل گڑھی دولت، مفتی محمد راشد صاحب اعظمی، مفتی عبد الرحمن صاحب امروہہ، مولانا کلیم اللہ صاحب امبیڈکر نگر، مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری،قاری محمد شوکت ویٹ، مولانا عبد الحئی مفتاحی مئو ،حافظ عبید اللہ بنارس، حافظ ندیم صدیقی مہاراشٹرا، مولانا سراج الدین چشتی اجمیر، مفتی افتخار احمد قاسمی کرناٹک، مولانا سید محمد مدنی دیوبند شریک ہوئے۔
قبل ازیں اجلاس میں خاص طور پر وقف ترمیمی ایکٹ کی خامیاں اور اس کے پس پشت مقاصد پر گھنٹوں بحث ہوا ، سب سے پہلے وقف کے تحفظ سے متعلق جمعیۃ علماء ہند کی جد وجہد پر مبنی ایک رپورٹ پیش کی گئی ۔