ایران، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے حکام جمعے کے روز ایک اجلاس منعقد کریں گے۔اس سے قبل تین یورپی ممالک نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایک تجویز پیش کی تھی جس کی وجہ سے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے تہران پر تنقید کرتے ہوئے ایک قرارداد جاری کی تھی۔
ایران نے اس فیصلے کی مذمت کی تھی، لیکن اس کے حکام نے امریکی منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے قبل دیگر فریقوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا ہے، جب کہ ان کی انتظامیہ نے اپنی پہلی مدت میں تہران پر "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی پر عمل کیا تھا۔ جس میں اس کے جوہری پروگرام کے معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری اور ان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنا شامل ہیں۔
یہ پروگرام مغربی طاقتوں میں تشویش پیدا کرتا ہے۔ مغربی ممالک کا دعویٰ ہ کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مطابق تہران دنیا کا واحد واحد ملک ہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کے کلب سے باہر یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کرتا ہے۔
دوسری جانب تہران اپنے پروگرام کے پرامن اور سول کردار پر زور دیتا ہے۔ سپریم لیڈر علی خامنہ ای کا اس حوالے سے ایک فتویٰ بھی موجود ہے جس میں انہوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال حرام قرار دیا ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین نے جمعرات کے روز عراقچی کے حوالے سے کہا کہ"ہمارا فی الحال 60 فیصد کی سطح سے تجاوز کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہم نے فی الحال ایسا کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ہم نے مسئلے حل تک پہنچنے کے لیے تعاون کا راستہ چنا ہے‘‘۔
لیکن عراقچی جو 2015ء کے جوہری معاہدے پر ہونے والی بات چیت میں سب سے نمایاں ایرانی مذاکرات کار تھے نے "اس وقت ایران میں زیادہ تر اشرافیہ کے درمیان ہونے والی بحث کے بارے میں بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ مغرب نے جو کہا ہم نے وہ سب کیا مگر اس کے باوجود پابندیاں ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ شاید ہماری پالیسی میں کچھ گڑبڑ ہے"۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کی گئیں تو "ایران میں ہر کوئی اس بات پر قائل ہو سکتا ہے کہ ہمارا نظریہ غلط تھا"۔ انہوں نے مزید کہاکہ "اگر ایسا ہوتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہر کوئی اس بات پر قائل ہو جائے گا کہ مغرب ایران کے خلاف پابندیاں لگا رہا ہے جوغلط ہے۔ اس کے بعد ہمیں اپنا راستہ بدلنا چاہیے۔
"ٹرگر میکانزم" اجازت دیتا ہے کہ اگر تہران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو سلامتی کونسل میں اس پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کی جا سکتی ہیں۔
تہران اور بڑی طاقتوں کے درمیان 2015 میں طے پانے والے اس معاہدے کا مقصد ایران پر عائد مغربی پابندیوں کو کم کرنا تھا جس کے بدلے اس کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں تاکہ اسے ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔
ٹرمپ کے دور میں واشنگٹن یک طرفہ طور پر 2018ء میں معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔اس کے بعد تہران نے جوہری سرگرمیوں سے متعلق اپنے وعدوں پر عمل درآمد کم کردیا تھا یورینیم کی افزودگی کی شرح کو 60 فیصد تک بڑھا دی تھی جو کہ ایٹم بم تیار کرنے کے لیے درکار 90 فیصد کے قریب ہے۔