انھوں نے یہاں آج پریس کے لیے جاری ایک بیان میں کہا کہ سید حسن نصراللہ گزشتہ تین دہائیوں سے اسرائیل کی ظالمانہ اور غاصبانہ پالیسیوں کے خلاف برسرپیکار تھے اور وہ لبنان میں مزاحمت کی ایک مضبوط آواز تھے۔
انھوں نے کہا کہ اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح مزاحمتی قیادت کو ختم کرکے مسئلہ فلسطین کو حل کیاجا سکتا ہے تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے، کیونکہ اس قسم کی بزدلانہ کارروائیوں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ اگر ایک قائد ختم ہوگا تو اس کی جگہ لینے کے لیے دوسرے لوگ آجائیں گے، جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہاہے۔ اصل مسئلہ فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کا ہے اور یہ لڑائی مزاحمتی گروپ مقصد کے حصول تک جاری رکھیں گے۔ جب تک اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیاں ختم نہیں ہوں گی، اس وقت تک فلسطینی عوام اور ان کے حامی اپنے وطن کی بازیابی اور خودمختاری کے لیے لڑتے رہیں گے، جو ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔
واضح رہے کہ حسن نصراللہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط آواز تھے اور انھوں نے حزب اللہ کے کمانڈر کے طورپر اس مزاحمتی تنظیم کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ لبنان کی سیاست میں بھی اپنا اہم مقام بنایا۔ وہ ایک ذی علم قائد تھے اور انھیں خطابت پر بھی ملکہ حاصل تھا۔انھیں ان کی علمی استعداد اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے طاقتور ترین شخصیت سمجھاجاتا تھا۔
انھوں نے اسرائیل سے مقابلہ کے لیے ایرانی قیادت اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کیا۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔