Masarrat
Masarrat Urdu

پروفیسر مظفر حنفی کا انتقال، بزم صدف انٹرنیشنل کا اظہار تعزیت

Thumb

 

نئی دہلی، 10 اکتوبر (مسرت نیوز) اردو کے نقاد، ادیب، شاعر اور استاذ پروفیسر مظفر حنفی کا طویل علالت کے بعد آج یہاں ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا۔ وہ دو سال سے بیمار تھے اور انہیں سلنڈر لگاہوا تھا۔ ان کی عمر 84 برس تھی۔ ان کی نماز جنازہ اور تدفین بعد نماز عشاء  بٹلہ ہاؤس قبرستان میں ادا کی گئی۔بزم صدف انٹر نیشنل کے چیرمین شہاب الدین نے ان کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
ان کے صاحبزادے اور شاعرو  ادیب فیروز مظفر کے مطابق،پسماندگان میں اہلیہ، کے علاوہ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2018 میں عمرہ کرنے کے بعد سے بیمار تھے وہ آکسیجن سلنڈر پر تھے۔ ہر وقت آکسیجن سلنڈر لگا رہتا تھا۔ ادھر دو دن سے طبیعت کچھ بہتر تھی لیکن آج یہاں عصر کے وقت انہوں نے آخری سانس لی۔ 
بزم صدف انٹرنیشنل نے 2019 کا بین الاقوامی ادبی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ملک میں سی اے اے کے خلاف جاری تحریک کی وجہ سے یہ پروگرام ملتوی کردیا گیا تھا اور اس کے بعد کورونا کے وبا نے اس پروگرام مزید ملتوی کردیا۔ اب یہ ایوارڈ بعد از مرگ دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ یکم اپریل 1936کو مدھیہ پردیش کے کھنڈوہ میں پیدا ہونے والے 84سالہ پروفیسر مظفر حنفی ادب کی مختلف صنفوں میں یکساں قدرت رکھنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ تنقید، تحقیق، شاعری کے ساتھ انہوں نے مخلف ادبی صنف میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ شاد عارفی سے انہوں نے شاعری کے رموز سیکھے اور پروفیسر عبدالقوی دسنوی کی نگرانی میں تحقیق کا کام انجام دیا۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر اور کلکتہ یونیورسٹی کے اقبال چیئر کے ہیڈ رہ چکے ہیں۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان پر پانچ پی ایچ ڈی ہوچکی ہے اور سیکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ  مظفر حنفی کا پہلا شعری مجموعہ1967ء میں ’پانی کی زبان‘نام سے منظرِ عام پر آیا۔ نقادوں نے یہ سمجھا کہ یگانہ اور شاد عارفی کے اثر سے اردو شاعری کی یہاں نئی زبان وضع ہورہی ہے۔ تقریباً بیس شعری مجموعوں کے ادبی سرمایے سے آج یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مظفر حنفی نے اپنے ہم عصروں سے بالکل مختلف رنگِ سخن ایجاد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ تنقید و تحقیق کے شعبے میں بھی مظفر حنفی نے نہایت سنجیدہ کاوشیں کی ہیں۔ شاد عارفی کے سلسلے سے متعدد کتابوں اور مجموعہء مضامین کے علاوہ میر حسن، محمد حسین آزاد، حسرت موہانی، محمد تقی میر جیسے ادیبوں اور شاعروں پر انھوں نے میعاری تعارفی مونوگراف شایع کیے۔ ترتیب و تدوین، تراجم اور بچوں کے ادب کے زمرے میں بھی ان کی کئی درجن کتابیں شایع ہوئیں۔ تنقید میں کھری اور سخت باتیں کہنے کے سبب مظفر حنفی کی پہچان قائم ہوئی۔ 
ادبی زندگی کا آغاز: 1949ء
اہم شعری مجموعے: پانی کی زبان(1967)، تیکھی غزلیں (1968)، عکس ریز (1969)، صریر خامہ (1973ء)، دیپک راگ(1974ء)، یم بہ یم(1979)، طلسمِ حرف (1980)، کھل جا سم سم (1981)، پردہ سخن کا(1986)، یااخی(1997)، پرچم گرد باد(2001)، ہاتھ اوپر کیے(2002)، آگ مصروف ہے(2004)، کمان(کلیاتِ حصہ اول)، تیزاب میں تیرتے پھول(کلیات حصہ دوم) 
تحقیق و تنقید:
شاد عارفی: شخصیت اور فن(1978)، شاد عارفی: فن اور فن کار(2001)، شاد عارفی ایک مطالعہ(1992)، مکاتیب و مضامین شاد  عارفی(2015)، شاد عارفی(مونوگراف، 2016)، کلیاتِ شاد عارفی (2016)، شاد عارفی کی غزلیں (1974)، ایک تھا شاعر(1967ء)، نقد ریزے(1978)، تنقیدی ابعاد(1980)، جہادِ جستجو(1982)، ادبی فیچر اور تقریریں (1992)، باتیں ادب  کی (1994)، لاگ لپیٹ کے بغیر(2001)، ہندستان اردو میں (2007)، مضامینِ تازہ(2010)، تنقیدی نگارشات(2015)، غزلیاتِ میر حسن(1992)، محمد حسین آزاد(1996)، حسرت موہانی(200)، میر تقی میر(2009)
پروفیسر مظفر حنفی کے انتقال پر بزم صدف انٹرنیشنل کے چیرمین شہاب الدین احمد نے زبردست ر نج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے ادبی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بزم صدف نے 2019 بین الاقوامی ادبی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تھااور جنوری میں ہونے والے بین الاقوامی پروگرام میں ایوارڈ دیا جانا تھا لیکن سی اے اے کے خلاف مظاہرے اور عالمی وبا کورونا کے باعث پروگرام ملتوی ہوتاگیا۔ 
اس کے علاوہ بزم کے سرپرست صبیح بخاری، بزم صدف کے میڈیا ڈائرکٹر  احمداشفاق، بہار کے ڈائرکٹر صفدر امام قادری، کویت کی بزم کی صدف کی ٹیم، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی ٹیم نے بھی پروفیسر مظفر حنفی کے انتقال پر زبردست رنج و غم کا اظہار کرتے ہؤئے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

Ads