نئی دہلی/دوحہ، قطر۔17/اگست (مسرت نیوز) بر صغیر سے باہر یورپ کے مختلف ملکوں میں وہاں کی حکومت اور انتظامیہ بھی یہ بات قبول کرتی ہیں کہ اردو سے سماجی ہم آہنگی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ بات برطانیہ کے ممتاز شاعر و ادیب باصر سلطان کاظمی نے بزم صدف انٹر نیشنل کی جانب سے منعقد آن لائن مذاکرہ بہ عنوان ’اردو: آزادی اور امن کی زبان۔ایک عالمی تناظر‘میں خطبہئ صدارت پیش کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ اگر آپ کو مختلف طبقوں اور اقوام کے درمیان ایشیائی زبانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا تو برطانیہ اور دوسرے یوروپی ممالک میں اردو کے لیے ماحول سازگار ہے۔ وہاں اسکولوں میں دوسری زبان کے بہ طور یورپ کی مختلف زبانوں کے ساتھ مساوی حیثیت سے اردو کا نام متعین ہے۔ انہوں نے یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں اردو کو درس و تدریس کا حصہ بنائے جانے کے امور پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ برطانیہ کی پولیس بھی اردو زبان سے واقف افراد کی اس وجہ سے قدر کرتی ہے کیوں کہ یہ طبقہ مختلف زبانوں کے بولنے والوں سے بہ آسانی رابطہ کرسکتا ہے۔
ممتاز ادیب اور دہلی یونی ورسٹی کے آرٹ فیکلٹی کے ڈین اور شعبہئ اردو کے سربراہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے امن اور آزادی کے امور پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انقلاب اور محبت کی صفات کی آمیزش سے اردو کی عالمی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے اردو کے مزاج کے حوالے سے جگر مرادآبادی کا مصرعہ پیش کیا: اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ انھوں نے کہاکہ اردو محبت اور شرافت کی زبان ہے، اس لیے اس میں نفرت اور تنگ نظری کا شائبہ تک نہیں دیکھا جا سکتا۔ انھوں نے اس پیغام سے اپنی گفتگو ختم کی کہ اردو کی تعلیم کو بڑھائیں اور اس کے پیغام کو ان لوگوں تک پہنچائیں جہاں اب تک یہ زبان کسی وجہ سے نہیں پہنچ سکی ہے۔
مذاکرے میں موضوع کا تعارف بزم صدف کے ڈائرکٹر کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ کے صدر شعبہئ اردو پروفیسر صفدر امام قادری نے کرایا۔ انھوں نے تاریخی تسلسل کے ساتھ مذاکرے کے موضوع امن اور آزادی کی زبان اردو کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کی۔ پروفیسر قادری نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی کہ اردو بادشاہوں کی گود اور درباروں میں پلی بڑھی۔ انھوں نے اردو کے پہلے شاعر حضرت ِ امیر خسرو کی مثال پیش کی کہ دربار سے وابستگی کے باوجود انھوں نے اپنی مثنویوں میں امن و امان اور رعایا کی فلاح کی باتیں کہیں۔ بادشاہ کی عظمت اس طور پر بتائی کہ اُس کی تلوار سوئی رہے۔ انھوں نے جعفر زٹلی، مرزا عبدالقادر بیدل، نظیر اکبر آبادی، مرزا رفیع سودا سے لے کرمرزا غالب تک کی مثالیں پیش کر کے یہ واضح کیا کہ اردو کے قدیم شعرا ایک طرف آزادیِ فکر کے امین رہے اور دوسری طرف انھوں نے سماج میں امن و امان اور خیرسگالی کے جذبات کو فروغ دینے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
مذاکرے میں مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے بزم صدف کے چیرمین شہاب الدین احمد نے بتا یا کہ وبائی صور ت حال سے پوری دنیا نبرد آزما ہے اور اس کی زد میں دنیا کے لاکھوں لوگ آتے جارہے ہیں۔ انھوں نے خاص طور سے ممتاز شاعر راحت اندوری کے انتقال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے مخصوص شاعرانہ مزاج کے پیشِ نظر اس مذاکرے کا عنوان رکھا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ راحت اندوری صرف شاعر نہیں تھے بلکہ امن و آزادی کے پیامبر بھی تھے۔ وہ بے امنی اور ظلم و ستم کے دشمن بھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ جمہوری قدروں کی حفاظت کے لیے سینہ سپر رہنے والے اس شاعر کا جانا ہمارے لیے ایک مستقل نقصان ہے۔ انھوں نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا کہ پتا نہیں، ایسی انقلابی آواز ہمیں پھر میسر آئے گی یا نہیں۔
ڈاکٹر واحد نظیر(جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)نے مذاکرے میں اردو کے ابتدائی دور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صوفیہ نے سماج کے مجبور، مقہور اور مظلوم لوگوں کی تربیت اور اصلاح کے لیے اردو زبان کا ستعمال کیا اور امن، انصاف، نجات اور آزادی کے پیغامات سے اس زبان کو مالامال کیا۔ انھوں نے اردو کی پوری تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ زبان محبت و اخوت اور امن و آشتی کی ترجمان رہی ہے۔
دوبئی سے تشریف فرما ریحان خاں نے اردو کو ایک ایسی زبان کے طور پر پہچاننے کی کوشش کی جو حد بندیوں اور تنگ نظریوں کے حصار کو توڑتی ہے۔ یہ زبان کسی ایک علاقے اور قوم سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ اجتماعی قومیت کی زبان ہے، اس لیے اس میں خیر سگالی، محبت اور رواداری کی خصوصیات ازلی طور پر شامل ہیں۔ امریکہ میں مقیم ممتاز شاعرہ محترمہ حمیرا رحمان نے کہا کہ یہ دنیا ایک عالمی گاؤں ہے، اس لیے ایک دوسرے کی زبان سیکھنے اور استعمال کرنے کی ایک عام ضرورت ہے۔ انھوں نے اردو کے مزاج کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ہر زمانے میں اردو امن اور آزادی کی نقیب بن کر ابھری ہے۔ انھوں نے بہ طورِ مثال ہندستان میں شہریت قانون کے سلسلے سے احتجاجی جلسوں میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظموں کو نعروں کی طرح پیش کیے جانے کو ایک حقیقت قرار دیا اور کہا کہ اردو کے فن کاروں نے ہمیشہ اپنے قلم کا قرض اتارا ہے۔
کینیڈاسے ممتاز شاعرہ محترمہ شاہدہ حسن نے اپنے معروضات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی سطح پر اردو ہماری امید اور یقین واعتماد کی ترجمان ہے۔ اردو نے نظام زندگی کی فرسودگی کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی اور اپنے عہد کی سچائیوں کو پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو رنگارنگی اور تکثیریت کی زبان ہے اور عالمی سطح پر اس کے پیغام کو بے حد سنجیدگی سے قبول کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جدید مواصلاتی نظام کے شانے سے شانہ ملاکر اردو چل رہی ہے اور یہ نئی دنیا میں اپنے لیے جدید تر مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔
مذاکرے کی نظامت ڈاکٹرندیم ظفر جیلانی(برطانیہ) نے کی جنھوں نے ابتدائی لمحات میں موضوع کی مناسبت سے خاطر خواہ گفتگو کی۔ بزم صدف کے سرپرستِ اعلی محمد صبیح بخاری نے مہمانوں کا استقبال کیا اور وبائی عہد کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو زبان کے انقلابی مزاج اور امن پسند انداز کو یاد کیا۔ پروگرام بزم صدف کی دوحہ قطر شاخ کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جس میں جناب عمران اسد، محمد عرفان اللہ، شفیع الرحمان، سید جاوید احمد زیدی، اے۔ ایم۔یو۔المنائی ایسوسی ایشن، قطر کے صدرجاوید احمد، فیصل نسیم، فرمان خاں اور محمد بنگش نے سرگرم خدمات انجام دیں۔الماس احمد، مصعب بن شہاب، ام سعدیہ، اور رمیسہ ندیم نے خصوصی طور سے تکنیکی امداد دے کر پراگرام کو کامیاب بنایا۔ ڈاکٹر محمد گوہر، عابد انور اورمسٹر کمار نے اپنے اداروں کی طرف سے تعاون اور شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد مشاعرے کی محفل سجائی گئی جس میں مندرجہ ذیل شعرا نے اپنے کلام پیش کئے=
ڈاکٹر تسلیم عارف رانچی، مسعود حساس کویت، ندیم ظفر جیلانی قطر، عشرت معین سیما جرمنی، واحد نظیر نئی دہلی، صفدر امام قادری، مہتاب قدر سعودی عرب، حسن کاظمی، حمیرا رحمان امریکہ، شاہدہ حسن کناڈا، عباس کاوش پاکستان، پروفیسر شہپر رسول، جامعہ ملیہ اسلامیہ، باصر کاظمی لندن نے اپنے کلام پیش کئے۔اس کے علاوہ صفدر امام قادری کی جانے پہچانے لوگ نامی کتاب کا اجرا بھی عمل میں آیا=