تہران، 19 دسمبر (یواین آئی) صدر مسعود پزشکیان نے واضح کیا ہے کہ ایران امن کا خواہاں ہے لیکن امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی توہین آمیز شرائط پر کسی صورت مذاکرات نہیں کیے جائیں گے، کیونکہ واشنگٹن ایران کی دفاعی طاقت چھین کر اسے خطے میں کمزور دیکھنا چاہتا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے بدھ کے روز تہران میں سیاسی ممتاز شخصیات اور مختلف جماعتوں کے سیکرٹریز کے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی جانب سے مذاکرات کے لیے عائد کردہ شرائط کو مسترد کر دیا۔
ملک پر عائد پابندیوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ ایران نے ماضی میں بھی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیے تھے اور ہم معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیار تھے، لیکن واشنگٹن نے جنگ کا راستہ اختیار کر کے اس معاہدے کو سبوتاژ کیا۔ صدر نے مزید کہا کہ امریکہ اب مذاکرات کے تسلسل کے لیے ایسی ذلت آمیز شرائط پیش کر رہا ہے جنہیں قبول کرنے کے لیے وہ قطعاً تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نہ تو تذلیل برداشت کرے گا اور نہ ہی ایک کمزور اور بکھرے ہوئے ملک کی حیثیت قبول کرے گا۔
صدر پزشکیان نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کسی سے ٹکراؤ نہیں چاہتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ تہران بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا اور اس حوالے سے ہر قسم کی بین الاقوامی تصدیق کے لیے تیار ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ دوسرا فریق ایران کو اس کی طاقت کے تمام عناصر سے محروم کر کے صیہونی حکومت کے سامنے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ پزشکیان نے کہا کہ ایران امن چاہتا ہے لیکن دھونس اور غنڈہ گردی کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔
خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے باعزت تعلقات اور جبر و تسلط کے سامنے جھکنے کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ صدر پزشکیان نے کہا کہ اگر دوسرا فریق واقعی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں فکر مند ہے تو ایران بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن ایران کی دفاعی میزائل قوت کے بارے میں کسی بھی قسم کے مذاکرات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
صدر نے مزید کہا کہ ان کی حکومت علاقائی استحکام اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی روابط کو فروغ دے رہی ہے، لیکن وہ ذلت آمیز مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرے گی۔
انہوں نے ان تاثرات کو بھی مسترد کیا کہ ان کی کابینہ کے پاس منصوبہ بندی کی کمی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے پاس واضح اسٹرٹیجک پروگرام موجود ہیں جن پر عمل درآمد جاری ہے۔ ان کے بقول، تعلیم، صحت، نقل و حمل اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہت مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور پہلے سے موجود عدم توازن کو دور کیا جا رہا ہے۔
