Masarrat
Masarrat Urdu

بے گانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ


اس ایک مصرع میں انداز بہت سادہ ہے، لیکن اس میں کئی باتیں پنہاں ہیں مثلاً یہ کہ بیگانی شادیوں میں دیوانے عبداللہ کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ ہیکہ، جن کا دولہا یا اس کے گھر والوں کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا، لیکن وہ ہر شادی میں اس طرح شریک ہوتے ہیں جیسے اس شادی کی خوشی دنیا بھر میں صرف ان کو ہوئی ہے۔ ان کا پہناوا عام طور پر یہ ہوتا ہے،کوٹ پینٹ یا بہترین شلوار قمیض کے اوپر شیروانی،پھر دوپلّے والی ٹوپی، ریشمی رومال پاؤں میں پالش کیا ہوا جوتا، یا شاندار،سینڈل،عطر سے معطر ہو کر بارات میں دولہا کے قریب ہو کر ایسے چلتے ہیں جیسے دولہا کے سب سے قریبی رشتہ دار یہی ہیں۔ بارات میں شامل ہر شخص سے اخلاق سے ملتے ہیں، جب بارات دلہن والوں کے یہاں پہنچتی ہے،سب سے آگے بڑھ کر سب سے یہی گلے مل کرخیر و عافیت ایسے دریافت کرتے ہیں کہ بنا ان کے پوچھنے سے وہ لوگ عافیت سے نہ ہو،نکاح کے وقت دولہا سے کندھا سے کندھا ملا کر بیٹھتے ہیں،اور با آواز بلند آمین کی صدا لگاتے ہیں کہ تمام حاضرین کی نظریں اپنے آپ ہی ان کی طرف مذکور ہو جاتی ہیں،صاحب خانہ اورحاضرین مجلس کے طنزآمیز اور مضحکہ خیز نگاہوں کا شکار بنتے ہیں،صاحب خانہ اور محفل میں شامل بعض صاف گو انہیں بڑے میٹھے انداز میں ٹوکتے بھی ہیں،لیکن یہ عبداللہ نہ جانے کس نشے میں محو رہتے ہیں،کہ انہیں آس پاس کا ہوش ہی نہیں رہتا،آخرکار صاحب خانہ ان کی بے جا محبت سے پناہ طلب کرکے انہیں بے کار سی ذمّیداری سونپ دیتے ہیں۔اور یہ بے گانے عبداللہ اسی میں مشغول ہو کر محفل کی بہت سی خوشیوں اور رونقوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ہمارے وطن ہندوستان میں انتخاب کے نتائج منظر عام پر آچکے ہیں،حسب معمول سیاسی ماحول گرم ہے اور گرم کیوں نہ ہو، آخر عوام کوتفریح اور مزاح کا سامان بھی تو چاہیے۔ فتح یاب ہونے والی پارٹی کے کارکنان نعرے لگاتے، ناچتے کودتے دکھائی دیتے ہیں۔کہیں فقرے بازی اور کہیں سر پھٹول اور اس کے بعد پھر گھر جا کر وہی مہنگائی کا رونا،گیس سلینڈر ختم ہونے کی فریاد مطبخ سے سنائی دیتی ہے اور کہیں بجلی جانے کا شکوہ وغیرہ۔ ہارنے والی پارٹی کے لیڈران سے لے کر کارکنان کی تجزیہ نگاری بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھر پور سنائی دیتی ہے۔کہیں نتائج انتخاب میں تبدیلی کے باعث حکومت ہاتھ سے چھن جانے کا ماتم ہے،اور کہیں نئی حکومت کے تشکیل کی سرگرمی ہے۔ہارنے والے پارٹی کے کارکنان حالات کے جلد از جلد بہتر ہونے کی چاہ میں بار بار شدت سے اپنے پسندیدہ رہنماؤں کی حمایت پر اکٹھا ہے اور کہیں جیتنے والے جیت کی خوشی میں سڑکوں اور راستوں کو جام کرکے اعلان جشن میں محو ہیں۔کیا آپ سمجھے عبداللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

ہم اگر کانریس یا اس سے جڑے مسلم نام و نہاد رہنماؤں کو اپنا خیر خواہ مانتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جناب جعفر شریف صاحب سے بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں نے ان سے بطور احتجاج مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا تو عزت مآب نے فرمایا کہ ’’میں صرف مسلمانوں کا نمائندہ نہیں ہوں‘‘۔ اس سے انکار کرنے والوں میں دو اور مسلمان (جو نرسمہا راؤ صاحب کی کابینہ میں جعفر شریف کے ساتھ تھے) غلام نبی آزاد، غنی چودھری مرحوم شامل ہیں۔ جناں سنیل دت وہ واحد فرد تھے جنہوں نے احتجاجاً لوگ سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا۔واہ رے ہمارے رہنما۔۔۔۔۔۔۔؟
آج سنگھ اور بھاجپا جو ہماری بہنوں کے حقوق کی علم بردار ہے اس نے نہ جانے کتنے فسادات میں انہیں بے حقوق بہنوں کی عزتوں کو تارتار کیا۔ان کے پالے ہوئے گنڈے اسکول،کالجوں،ٹیوشن سینٹروں،دفتروں اور کم و بیش ہر جگہوں میں انہی بے حقوق بہنوں کو اپنی گندی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے دن و رات محنت اور مشقت کرتے ہیں،اور اس کو ان کے مذہبی جاہل رہنما مذہبی فریضہ سمجھا کر اور فروغ دیتے ہیں،لعنت ہے ایسے مذہب پر جو جسمانی اعتبار سے کمزور بے کس،اور جزبات سے مغلوب عورتوں کے عزت سے کھلواڑ کو نیکی اورپنیہ سمجھتا ہے۔عورت بے چاری بیل کی طرح ہے اسکو ایک سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔جہاں سہارا ملتا ہے،وہی چلی جاتی ہے،اگرچہ وہ سہارا جھوٹہ ہی کیوں نہ ہو؟ مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کیلئے ہندوستان میں جبری نسبندی کی گئی اور ہزاروں فسادات کرائے گئے۔2015 ء کی ہیومن رائسٹ کمیسن کے مطابق چھوٹے بڑے ملا کر اب تک 84000 ہزار فسادات ہو چکے ہیں. آزادی کے بعد سے خونریز فسادات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے جس کی تازہ یادگار گجرات تھی۔جہاں حکومت کی نگرانی میں نسل کشی کی گئی۔ فسادات کے وقت گجرات کے جو حکمراں تھے، وہ آج مرکز کے اقتدار پر فائز ہیں۔کانگریس کے دامن بھی بھاگلپور اور دیگر کئی فسادات سے رنگے ہیں،جس کا قبول نامہ چند دن قبل کانگریس کے معزز رہنما سلمان خورشید صاحب کر چکے ہیں۔مسلمان سرسٹھ سالوں تک کانگریس کی اطاعت پر معمور ہیں۔ہم نے اپنے سیاسی و غیر سیاسی ایجنڈے کو ترک کردیا،اور عافیت کی زندگی کی تلاش میں سب کچھ بھلا کر، ملی مذہبی بنیادوں پر اپنی صف بندی کو ترک کرتے ہوئے ان پارٹیوں کے تابع ہوگئے اور سیکولرازم کے علمبردار اور مبلغ بن بیٹھے۔آخر ہمیں کیا میسر آیا ،سوائے ذلت ورسوائی کی زندگی اور کیا؟۔مسلمانوں کیلئے کانگریس کے اس طویل دور اقتدار کا ہر دن قیامت انگیز ثابت ہوا،ہمارے بچوں کو دہشت گردی کے الزام میں جیل میں بند کردیاگیا۔باٹلہ ہاؤس انکائنٹر،اور دیگر ظالمانہ حکومتی دہشت گردی۔دلّی کے کانگریس کے ایک پریس ریلیز میں 2014 ء سے قبل میں بھی شامل تھا ،تب ایک مسلم بھائی نے جب باٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا ذکر کیا تو عزت مآب سونیا گاندھی جی نے اپنے خصوصی باڈی گارڈ کے ذریعے انہیں گردن سے پکڑ کے باہر نکلوا دیا گویا کہ قصائی جس طرح ایک مرغی یا مرغے کو باہر کھینچتا ہے تمام مرغے اس کا تماشہ دیکھتے ہیں،لیکن وہ مرغے جانتے نہیں کہ اگلہ نمبر ان کا ہی آنے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اللہ خیر کرے۔۔۔بھائیوں ہم کس سے خوف زدہ ہیں ؟کیا ہمیں اللہ کا ڈر نہیں ۔؟کیا شرک صرف مزارات پر ہی ہمیں دیکھائی دیتا ہے ؟کیا ظالم کے ڈر سے حق نہ کہنا شرک نہیں؟۔۔۔۔مسلمانوں اس ملک ہندوستان کے چپہ چپہ پر ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کے نقوش ثبت ہیں۔ظالموں کی نسلیں ختم ہو جائیں گی لیکن یہ لوگ مسلمانوں کی شناخت ختم نہیں کرسکتے ہیں ۔مسلمان اس ملک کے معمار ہیں۔مادرِ وطن کو ہم نے عزت و شہرت اور وقار عطا کئے ہیں۔ہمارے آباؤ اجداد کی بے پناہ قربانیاں یونہی نہیں مٹائی جاسکتیں۔ چند سرپھرے اور اقتدار کے نشے میں چور اوباش قسم کے لوگوں کے ظالمانہ روش پر مسلمانوں کو توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ہم نے جب نمرود و فرعون اور ابو جہل،ابولہب اور سب سے بڑھ کر تاتاری فتنوں کا بخوبی مقابلہ کیا تو یہ ظالم کیا چیز ہیں،پدّی نہ پدّی کا شوربہ۔دور حضر میں ہم نے سب سے بڑی سپریم طاقت کا مقابلہ کیا۔کیا ہم بھول گئے کے امریکہ کا ہم نے عراق پھر افغانستان میں مقابلہ کیا ۔ظالم خیر منائے کہ ہمارے پاس ابھی ہوئی لڑائی لڑنے کی صلاحیت نہیں۔اگر آجائے تو نتیجہ دنیا دیکھے گی۔انشاء اللہ۔۔۔آمین۔۔ باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سوبار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانہ نام و نشاں ہمارا
نہ ہمارے لیے کانگریس دوست ہے نہ بھاجپا دشمن۔ نہ ہمیں بھاجپا چاہئے نہ کانگریس ہمیں تو اپنی عزت و وقار کو دیکھنا ہے۔جو ہمارا فائدہ کرے وہی اپنا ہے۔ہم نہ کسی پارٹی کو مکمل اقتدار دیں نہ کسی سے اپنی کیر خواہی کی امید رکھیں۔جب جب کسی ایک پارٹی کا مکمل اقتدار رہے گا ، ہمارا وجود خطرے میں رہے گا۔
اے چشمِ اشک بار ذرا دیکھ تو لے یہ گھر جو بہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو

9968012976

Ads