Masarrat
Masarrat Urdu

بیٹیوں کے فضائل واحکام قرآن وحدیث کی روشنی میں

  • 07 Nov 2018
  • مولانا غیو راحمد قاسمی
  • مضامین
Thumb

 


قرآن کریم واحادیث کی روشنی میں زندگی گذارنے والے شخص کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے وہ اپنی اولاد کی تربیت بہتر انداز میں کرسکتا ہے۔ نبی کریمؐ نے بیٹیوں کی پرورش پر جتنے فضائل بیان فرماتے ہیں بیٹے کی پیدائش پر اس قدر بیان نہیں فرمائے۔ بیٹیاں رحمت ہیں اور رحمت کے بارے میں کبھی سوال نہیں ہوگا اللہ کا فیصلہ ہے جس کو چاہے اپنی رحمت سے نوازیں ارشاد خداوندی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت صرف اللہ کے لئے ہے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے او رجس کو چاہتا ہے بیٹے او ربیٹیاں دونوں عطا کرتاہے او رجس کو چاہتاہے بانجھ کر دیتا ہے (سورہ الشوریٰ) لڑکیوں کو کمتر سمجھنا زمانہ جاہلیت کے کافروں کا عمل تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا ہے (ان میں سے جب کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے) موجودہ دور میں بھی بہت سارے خاندان اور افراد بیٹی کے پیدا ہونے پر سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خاص خوشی ومسرت کا اظہار نہیں کرتے جبکہ اگر لڑکے کی خبر دی جائے تو فرحت وشادمانی میں ان کا دل جھومنے لگتا ہے اور گھروں میں خوشبوں کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ شریعت مطہرہ نے اسی امتیاز کی بیخ کنی ہے اسی جذبہ کی فکیر کی ہے پیدائش چاہے لڑکی کی ہو یا لڑکے کی اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرے اور فرسودہ خیالات کے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے بیٹی کی پیدائش پر دل سے خوشی کا اظہار کرکے متبع رسول کا نبوت دے تاکہ معاشرہ سے اس گندی سوچ کا خاتمہ ہو حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہو اور وہ ان کے متحد بہت اچھے طریقہ سے زندگی گذارے ان کے حقوق ادا کرے جو شریعت نے مقرر کئے ہیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی (ترمذی)
لڑکیوں کی شریعت اسلامیہ کے مطابق تعلیم وتربیت کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین انعامات وفضیلت حاصل ہوں گی (۱) دوزخ سے نجات (۲) جنت کا حصول (۳) معیت رسول۔ اسی طرح بہن کا مقام ہے بہن بھی بیٹی کی طرح ہوتی ہے بہن کے وہ تمام تر حقوق ہیں جو اسلام بیٹی کو دیتا ہے شریعت اسلامیہ نے سگی بہنوں اور رضاعی بہنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آنے کا درس دیا ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ مثالی حقوق دئیے ہیں جو آج تک کوئی مذہب نہیں دے سکا معاشرہ میں ہماری بہن یا بیٹی قطعاً پریشانی کا سامنا نہیں کرسکتی اگر اس کے حقوق ادا کئے جائیں ہمارے معاشرہ میں آج عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتاہے کبھی یہ کہہ کر شادی کے بعد شوہر کی ذمہ داری ہے ہماری نہیں ہم نے تو جہیز دیدیا، چند برتن، زیور، میز ، کرسی دے کر عورتوں کو ان کے حق شرعی سے محروم کرنے کا رواج ہمارے معاشرہ میں عام ہے۔ قرب قیامت کی نشانی ایک وراثت کی تقسیم کا علم اٹھ جانا بھی ہے اسلام تو عورتوں کو حق وراثت دیتا ہے لیکن مسلمان نہیں جبکہ باپ کے مرنے کے بعد جائیداد میں اس کا حق رہتا ہے شادی کردینے سے حق وراثت ختم نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے بہن بیٹیوں کے ساتھ انصاف او رحسن معاملات محبت اور عزت واحترام کا معاملہ کریں موجودہ حالات میں اکثر وبیشتر خواتین کو مختلف طریقوں سے ظلم وجبر کا نشانہ بنایاجاتاہے بدسلوکی لڑائی، جھگڑا کیاجاتاہے سرراہ لڑکیوں اور خواتین کو تنگ کیاجاتاہے بیوہ اور مطلقہ عورتوں کو منحوس اور معیوب خیال کیاجاتاہے سماج اور معاشرہ میں ایسے افراد پر شکنجہ کسنے کی ضرورت ہے قلب سلیم اور صحیح فکر واسلامی تعلیمات سے واقف ہونے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے معاشرہ میں عورتوں کو وہی عزت ومقام مل سکے جس کی وہ حق دار ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ بات عام طور پر دیکھنے میں آتی ہے کہ صرف بھائی ہی نہیں والدین بھی بیٹیوں کو اپنی میراث سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی زندگی ہی میں طرح طرح کے حیلے بہانے اختیار کرتے ہیں۔
بہرحال، لڑکیوں کو میراث سے ان کے بھائی محروم رکھنا چاہیں یا ان کے والدین اپنی زندگی ہی میں اس کا کوئی حیلہ اختیار کریں، دونوں صورتوں میں یہ بات سرا سر ظلم ہے اور خدا کے ہاں اس کی جواب دہی ہو گی۔ والدین کی میراث میں خدا نے جیسے بیٹوں کا حصہ رکھا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا حصہ بھی رکھا ہے۔ حصہ کی مقدار کا فرق تو ضرور ہے، لیکن حصہ دار ہونے میں دونوں کو ایک جیسی حیثیت حاصل ہے۔ جو شخص کسی وارث کی اس حیثیت کو عملاً بدلتا ہے، وہ خدا کے فیصلے کو ناپسند کرتا اور اسے بدلتا ہے اور یہ چیز بہت بڑا جرم ہے۔ سورہ نساء4 میں میراث کے سارے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
''یہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی حدیں ہیں، (اِن سے آگے نہ بڑھو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اْس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، اْنھیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اْن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اْس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اْس کی ٹھیرائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اْنھیں ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اْن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔'' (4: 13۔14)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ خدا کی طرف سے میراث کے یہ طے شدہ حصے خدا کی حدیں ہیں۔ ان حصوں کو بدلنا یا انھیں پامال کرنا خدا کی حدوں کو توڑنا ہے اور جو خدا کی حدوں کو توڑے گا ، اس کے لیے ایسی آگ ہو گی جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کر دینے والا عذاب ہو گا۔جہیز کا میراث کے حصے سے کوئی تعلق نہیں۔ جہیز ایک معاشرتی رسم ہے۔ لڑکی کو ماں باپ کے جہیز دینے سے اس (لڑکی) کے حصے کی میراث میں سے ایک پائی بھی ادا نہیں ہوتی،لہٰذا وہ جہیز دیں یا نہ دیں، انھیں میراث میں حصہ دینا ہو گا۔
’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وارثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دویا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دوتہائی حصہ ہے ؂، اور اگر وہ اکیلی ہوتو اس کے لئے آدھا ہے‘’۔ النساء 11:4
قرآن حکیم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی اور سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیاگیاہے وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ بطور بہن عورت کا وراثت کا حق بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا: ’’اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونو ں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہوگی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد‘‘۔ النساء 12:4)
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ مسلمان صدیوں سے قانون وراثت کے معاملے میں حدود اللہ کو پامال کرتے آرہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں جاہل اور اَن پڑھ طبقہ ہی ملوث ہے بلکہ اچھے خاصے دیندار لوگ بھی اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں مختلف حیلوں او ربہانوں سے ماں بہن بیٹی اور دوسرے حق داروں کو میراث سے محروم کردیا جاتاہے۔ مثلاً اگر والد کا انتقال ہواتو بیٹے ترکہ کو آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں اور ماں کو اس سے یہ کہہ کر محروم کردیتے ہیں کہ امی تو ہمارے ساتھ ہی رہیں گی۔ ان کو اس کی کیا ضرورت بھلا؟ سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ مقرر کردیا تو پھر مین میخ نکالنے کا کیا حق ہے؟ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ماں بے چاری بیٹوں کے یہاں باری باری بھٹکتی رہتی ہے اور اسے اپنی ضروریات کے لئے ان کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے او راگربہو جدید دور کی مل جائے تو بیڑا ہی غرق ہوجاتا ہے۔ اگر ماں کو ترکہ دے دیاجائے تو وہ خو دکفیل رہے گی یا کم ازکم لوگ لالچ ہی میں اس کی خدمت کریں گے اور اس کی بقیہ زندگی آرام سے کٹ جائے گی۔
ایسے ہی بہنوں کو حصہ دیا نہیں جاتا ہے او راگر بہن نے مانگ لیا تو کہا جاتا ہے کہ تمہیں بھائی چاہئے یا حصہ؟ یہ ایک طرح کی دھمکی ہوتی ہے کہ اگر تم نے حصہ لیا تو پھر ہمارا تم سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ اور اگر حصہ نہیں لوگی تو ہم تمہارا ہر طرح سے خیل رکھیں گے۔ بہن مجبور ہوکر چھوڑ دیتی ہے۔ بعض دیندار لوگ بہنوں کا حصہ ان سے اپنے حق میں دستبردار کرا لیتے بیسیا معاف کرالیتے ہیں۔ یہ منطق بھی سمجھ سے باہر ہے۔
کیوں بہن اپنا حصہ بھائی کے لئے معاف کردے؟ کیوں نہیں بھائی ہی اپنا حصہ بہن کے حق میں معاف کردیتا؟؟ مجھے تو کم از کم آج تک ایسی مثال دیکھنے کو نہیں ملی۔
بعض ’علامہ حضرات‘ فرماتے ہیں کہ بہن یا بیٹی کو جہیز دے دیا ہے تو اب اس کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے جب کہ جہیز کا تصور اسلام میں ہے ہی نہیں اور نہ ہی جہیز وراثت کا بدل ہے۔ کیوں کہ والدین اپنی زندگی میں جو کچھ اولاد کو دیتے ہیں وہ تحفہ ہوتا ہے، نہ کہ وراثت میں حصہ تو دینا پڑے گا یہاں نہیں دیاتو آخرت میں اپنی نیکیوں کی صورت میں دینا پڑے گا۔
اسی طرح بیوی اور بیٹی کو بھی مختلف حیلوں کے ذریعے ترکہ سے محروم کردیاجاتاہے یا ان ہی بیٹیوں کو دیاجاتاہے جن کی شادی نہیں ہوتی تاکہ دولت اور جائیداد گھر سے باہر نہ جاسکے۔
کہیں صرف بڑے بیٹے کو کل کا مالک بنادیا جاتا ہے تو کہیں سرے سے تقسیم ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ اور ورثات مشترکہ خاندانی جائیداد سمجھ لی جاتی ہے۔
جس کی وجہ سے بعد میں آپسی لڑائیاں ہوتی ہیں اور نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس طرح کے تمام حیلے او ربہانے اللہ تعالیٰ کے خلاف کھلی بغاوت کا نمونہ ہیں اور اس پر بھیانک عذاب ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنت تجری من تحتہا النہر خلدین فیہا وذالک الفوز العظیم ومن یعص اللہ ورسولہ ویتعد حدودہ یدخلہ ناراً خالداً فیہا ولہ عذاب معہین (النساء: 14:13)
آج کل نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ پر بہت توجہ دی جارہی ہے لیکن بندوں کے حقوق اور معاملات، خاص کر وراثت کی تقسیم سے ہم لوگ غافل ہیں۔ اس پر توجہ دینی ہوگی اور اس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے ورنہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہماری نمازیں اور عبادتیں بے وزن ہوں گی۔
صفر دیکھنے میں معمولی لگتا ہے لیکن بڑے سے بڑے عدد کو اگر اس سے ضرب دے دیا جائے تو حاصل ضرب صفر ہوجاتا ہے۔
عام خیال یہ ہے کہ وراثت انتقال کے کافی بعد تقسیم کرنی چاہئے ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ ادھر آنکھ بند ہوئی او رادھر بٹوارہ شروع ہوگیا۔ مگر یاد رہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کسی انسان کا نہیں اور ویسے بھی وارثین کو بھی ترکہ تقسیم کرنے میں جلدی کرنی چاہئے کیو ں کہ وفات کے وقت لوگوں کے دل غم زدہ ہوتے ہیں اور دنیا کی رنگینیوں کو بھولے ہوئے ہوتے ہیں، اس لئے بے ایمانی، لالچ اور دھوکہ دھڑی کا جذبہ نہیں پیدا ہو پاتا لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا جاتا ہے لوگوں کے سروں پر شیطنت سوا رہوتی جاتی ہے او رایک دوسرے کا گلا کاٹنا شروع کردیتے ہیں۔
بہنوں سے حْسنِ سْلْوک کی مثالیں:
نبی کریمؐنے اپنی رَضاعی (دودھ شریک )بہن حضرت شیماءؓ کے ساتھ یوں حْسنِ سْلْوک فرمایا: (1)اُن کیلئے قیام فرمایا(یعنی کھڑے ہوئے)(سبل الھدی والرشاد،ج5، ص333) (2)اپنی مْبارَک چادر بچھا کر اْس پر بٹھایا اور (3)یہ ارشاد فرمایا: مانگو،تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو، تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔(دلائل النبوہ للبیہقی،ج5، ص199،ملتقطاً)اس مثالی کرم نوازی کے دوران آپ ؐکی مْبارَک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، (4)یہ بھی ارشادفرمایا :اگر چاہو تو عزّت و تکریم کے ساتھ ہمارے پاس رہو،(5)واپس جانے لگیں تو نبی کریم ؐنے تین غلام اور ایک لونڈی نیز ایک یا دو اونٹ بھی عطا فرمائے،(6)جب جِعیرَانَہ میں دوبارہ انہی رَضاعی بہن سے ملاقات ہوئی تو بھیڑ بکریاں بھی عطا فرمائیں۔(سبل الھدی والرشاد،ج5، ص333 ملتقطا)
ہمارے پیارے نبی ؐکا اپنی رَضاعی بہن سے حْسنِ سْلْوک ہر بھائی کویہ اِحساس دِلانے کے لیے کافی ہے کہ بہنیں کس قَدر پیاراورحْسنِ سْلْوک کی مستحق ہیں۔ حضرت سیّدْنا جابِر بن عبداللہؓ نے محض اپنی نو یا سات بہنوں کی دیکھ بھال،اْن کی کنگھی چوٹی اور اچھی تربیت کی خاطر بیوہ عورت سے نکاح کیا۔(مسلم، ص593،594،حدیث:3641،3638)
اسلام نے عورت کے بہن پھوپھی اور خالہ ہونے کی صورت میں بھی ان کے حقوق کا بڑا خیال رکھا ہے عورت چاہے کسی بھی شکل میں ہو اس کا خیال بھی ضروری ہے تعلیمات اسلامی میں (کسی بیوہ، مسکین کی مدد کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا ہے یا پھر وہ ایسے ہے جو بلاناغہ تہجد گذار ہو یا پھر ایسے ہے جیسے کوئی مسلسل روزے رکھنے والا ہو) بہن کے روپ میں عورت ایک بہت خوبصورت او رپاکیزہ رشتہ ہے بہن خواہ بڑی ہو یا چھوٹی باعث رحمت ہوتی ہے وہ حقوق جو شریع تمطہرہ نے بیٹی کے لئے مقرر کئے ہیں وہ تمام حقوق بہن کے لئے بھی مقرر کئے گئے ہیں اسلام نے عورت کو معاشرہ میں نہ صرف باعزت مقام ومرتبہ عطا کیا بلکہ اس کے حقوق بھی متعین کردئیے جن کی بدولت وہ معاشرے میں پرسکون زندگی گذار سکتی ہے۔

9899252786

 

Ads