پچھلے ۶؍اکتوبرکو غزہ پر مسلط اسرائیلی درندگی کے ایک سال مکمل ہو گئے۔ اس دوران غزہ کی ۲۴؍لاکھ آبادی کو ایک دن کا سکون نہیں ملا۔ غزہ کے اکثر علاقوں کو اسرائیل نے تباہ کر دیا ہے اور وہاں کے لوگوں کو باربار اپنےگھروں اور خیموں سے بھاگ کر دوسری جگہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل، بہت سے مغربی لیڈران اور مغربی میڈیا اس سب کے لئے ۷؍اکتوبر۲۰۲۳ کے حماس کے مزاحمتی حملے کو ذمےدار قرار دے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ اس دن نہیں شروع ہوا بلکہ ۷؍اکتوبر۲۰۲۳ کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے۔ ۷۵سال کے اسرائیلی قبضے، فلسطینیوں کی اکثریت کو ریفیوجی بنانے اور مقبوضہ علاقوں میں بھی فلسطینیوں کو ادنی حقوق اور شہری آزادیوں سے محرومی کی لمبی تاریخ ہے۔ کاغذی معاہدوں کے باوجود فلسطینی آج بھی تمام حقوق سے محروم ہیں۔ ۷؍اکتوبرکو انھیں مجبوراً ایک مزاحمتی اٹھانا پڑا تاکہ اسرائیل کو کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور کیا جا سکے۔ اس دوران اسرائیل اپنے اغواشدہ شہریوں کو واپس لانے میں ناکام رہا ہے۔ مزاحمت کے قائدین اسماعیل ھنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت بہت بڑا خسارہ ہے لیکن اس سے مزاحمت کرنے والوں کی ہمت پست نہیں ہوئی ہے۔ اس مزاحمتی عمل سے فلسطینیوں کو بہت تکلیف ضرور ہوئی ہے لیکن اس کے فائدے بھی بہت ہیں۔
۷؍ اکتوبر کے مزاحمتی حملے کے بعد اسرائیل کی بےنظیر درندگی کی وجہ سے دنیا کا نقظۂ نظر اسرائیل کے بارے میں بدل گیا ہے۔ آج انٹرنیشنل کورٹ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف مقدمہ زیرسماعت ہے۔ اسرائیل کی درندگی کے خلاف یہ مقدمہ جنوبی افریقہ بین الاقوامی عدالت میں لے گیا تھا لیکن اب تقریبا ایک درجن مزید ملک اس قضیے میں اسرائیل کے خلاف فریق کے طور شامل ہوگئے ہیں۔ ایک درجن سے زیادہ یوروپین ممالک نے فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔ تقریباً اتنے ہی ممالک نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لئے ہیں یا اپنے سفراء کو تل ابیب سے واپس بلا لیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کوکہا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے ایک سال کے اندر اپنا قبضہ ہٹالے۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن نے اسرائیلی درندگی کی واضح طریقے سے مذمت کی ہے اور اسے نسل کشی قرار دیا ہے۔ اسرائیل وزیر اعظم نتنیاہو جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو بہت سے ملکوں کے وفود نے واک آؤٹ کر دیا۔ اس کے خلاف بین الاقوامی عدالت سے گرفتاری کاوارنٹ جاری ہونے والا ہے۔ صرف یوروپ میں پچھلے ایک سال کے دوران تقریباً ۲۵ہزار مظاہرے غزہ اور فلسطین کی تایید میں ہوئے ہیں۔ آج اسرائیل مغرب میں رائے عامہ کی جنگ ہار چکا ہے۔ اس سب کا تصور ۷؍اکتوبر سے پہلے ناممکن تھا۔
اس اسرائیلی جارحیت سے غزہ کے شہریوں کو شدید تکلیف اٹھانی پڑی ہےلیکن کسی نے شکایت نہیں کی، کسی نے حماس کو گالی نہیں دی۔ اب تک غزہ کے ۴۲؍ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ تقریباً دس(۱۰) ہزار لاشیں اب بھی ملبوں کے اندر دبی ہوئی ہیں۔ ۸۰؍ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے ۱۷۵؍صحافیوں کو چن چن کر قتل کیا ہے تاکہ اس کی درندگی کی خبریں دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔ غزہ کی ۷۵؍فیصد عمارتیں پوری طرح یا جزوی طور پر منہدم ہو چکی ہیں۔ بجلی ، پانی، انٹرنٹ سمیت پورا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ سارے اسپتال، اسکول اور یونیورسٹیاں تباہ کر دی گئی ہیں۔ ۸۰۰؍ سے زیادہ مسجدیں مسمار ہوئی ہیں۔ اس سب کی تعمیرنو میں بیسیوں سال لگ جائیں گے بشرطیکہ اس کے لئے کافی بیرونی مال امداد بھی آئے جوکہ بہت آسان نہیں ہے۔ غزہ کے اکثر لوگ خود سے اپنے گھروں اور دوسری عمارتوں کو دوبارہ نہیں بنا پائیں گے۔
اس جنگ کے دوران اسرائیل نے ساری حدود پار کردیں۔ چن چن کر عمارتوں، انسانوں اور حتی کہ جانوروں پر حملے کئے گئے۔ اسرائیل نے غزہ اور جنوبی بیروت دونوں جگہوں پر ہزاروں دو-دو ٹن کے بم گرائے جو زمین کے اندر نو (۹) منزلوں تک تباہی مچاسکتے ہیں اور پورے کے پورے علاقوں کو تہ و بالا کردیتے ہیں ۔ شہری آبادیوں کو یوں بےدریغ تباہ کرنے کی روایت پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کے دوران بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے ہزاروں معصوموں کا آٹومیٹک طور سے قتل نیز پیجراور واکی ٹاکی کے آلات کو ہزاروں کی ہلاکت کا ذریعہ بنانا دنیا میں دہشت گردی کے ایک نئے دور کی ابتدا ہے ۔ یقینی طور پر دوسرے لوگ بھی اس خوفناک دہشت گردی کو اپنائیں گے اور دنیا کو جہنم بنائیں گے۔
اس وقت اسرائیل اور اس کے پیچھے امریکہ پورے علاقے کی نئی تصویر (ایک ’’نیا مشرق وسطی‘‘ New Middle East) بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس میں امریکہ اور اسرائیل کوبرسوں مکمل تسلط حاصل رہے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ برسوں تک یہ کشمکش جاری رہے گی اور علاقے کے لوگ دسیوں سال مزاحمت کرنے پر مجبور ہونگے۔
اس خوفناک جنگ کا اسرائیلیوں پر بھی بڑا اثر پڑا ہے۔ شمالی اسرائیل اور غزہ کے پاس رہنے والے تقریبا دو لاکھ اسرائیلی بے گھر ہوکر دوسرے علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران تین لاکھ اسرائیلیوں نے نفسیاتی علاج کے لئے اسپتالوں کا رخ کیا۔ ۸ ؍ اکتوبر کی خبر ہے کہ ایک چوتھائی اسرائیلی (۲۳% فیصد یہودی آبادی) ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں اور کم از کم ۵ لاکھ یہودی اس مدت میں اسرائیل چھوڑ کر جا چکے ہیں ۔اسرائیل کے ۶ملین (۶۰ لاکھ) یہودی باشندوں کے تناظر میں یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ چند دنوں پہلے اسرائیل کے اعلی ترین سائنسی ادارے تخنیون Technion کا ایک پروفیسر کہہ چکا ہے کہ اگر اعلی صلاحیت کے صرف ۳۰ہزار اسرائیلی ملک چھوڑ دیں تو اسرائیل کا سائنسی اور ٹکنالوجی تفوق ختم ہو جائے گا۔ اب ان کی جگہ حبشہ کے فلاشا، یمن کے یہودی اور ہندوستان کے میزورام وغیرہ کے لوگ ،جو خود کو گم شدہ بنی منسّے Bene Manesse یہودی قبیلے کی اولاد ہونے کا دعوی کرتے ہیں، اسرائیل جائیں گے، لیکن یہ لوگ اس کوالٹی کے نہیں ہوں گے جس سے اسرائیل کو سائنسی تفوق ملتا ہے۔
اسرائیل اقتصادی طور سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔جنگ کا بار اسرائیلی اقتصاد پر غیر معمولی ہے۔ اگر امریکی مالی اور فوجی امداد نہ ملے تو اسرائیل آج ہی دھڑام سے گر جائے۔ صرف اس پچھلےایک سال میں اسرائیل کو 17.9بلین ڈالر کی امریکی فوجی امداد ملی ہے جو کہ ہندوستانی کرنسی میں 15 کھرب روپئے سے زیادہ ہے۔ جنگ کے دوران اسرائیل کو امریکہ سے سینکڑوں کھیپ اسلحے، راکٹ، بم اور لڑاکا جہازوں کی ملی ہے جبکہ غزہ میں محصور حماس اور الجہاد الاسلامی کواس عرصے میں کہیں سے ایک سوئی بھی نہیں ملی ہے کیونکہ سنہ ۲۰۰۶ سے اسرائیل غز ہ کا ہر طرف سے مکمل محاصرہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود بھی اسرائیل غزہ کے جیالوں کو ہرا نہیں سکا ہے۔
اسرائیل کو براہ راست مدد دینے کے علاوہ امریکہ نے یمن میں انصاراللہ کی حکومت کے خلاف براہِراست فوج کشی پر 4.86 بلین ڈالر خرچ کیا ہے جو کہ تقریباً ۶؍کھرب ہندوستانی روپئے کے برابر ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو بچانے کے لئے جو رقم اس دوران خرچ کی ہے وہ یہ سب نہیں بلکہ اس کے علاوہ کچھ دوسری مدیں بھی ہیں جن کے بارے میں ابھی بتایا نہیں گیا ہے۔
اسرائیل پہلی بار ایک ساتھ بہت سے محاذوں پرایک سال سے لڑنے پر مجبور ہے۔ غزہ، لبنان، یمن، ایران، عراقی ملیشیا اور ایک طرح سے ایران بھی اس جنگ میں شامل ہیں– یہ سب اسرائیل کے لئے بہت بڑا دردسر ہے اور امریکہ کی غیرمعمولی فوجی اور سیاسی مدد کے بغیر وہ ایک دن بھی یہ جنگ جاری نہیں رکھ سکتا ہے۔ اس کے بالمقابل کم ازکم حماس کو تو کوئی مدد کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ نے اپنی براہِ راست فوجی طاقت بھی اسرائیل کو بچانے کے لئے جھونک دی ہے۔ بالکل شروع میں دو (۲) امریکی ایئر کرافٹ کیریئر بحرابیض متوسط میں مہینوں کھڑے رہے اور مزید ایک ایئر کرافٹ کیریئر خلیج عربی/فارسی میں تعینات رہا تاکہ اسرائیل کے خلاف کوئی جنگ میں شریک نہ ہوسکے۔ اب دوبارہ اسرائیل پر ایران کے ممکنہ حملے کے خلاف پیش بندی کے لئے امریکی فوجی بیڑہ خلیج پہنچ گیا ہے تاکہ ایران پر دباؤ جاری رکھا جا سکے۔ امریکہ عام حالات میں ۳۴؍ہزار فوجی مشرق وسطی میں رکھتا ہے لیکن جب سے غزہ کی لڑائی شروع ہوئی ہے، اس نے اس کو بڑھا کر ۵۰؍ہزار فوجی کر دیا ہے۔ اب صرف امریکہ دنیا میں اسرائیل کا مکمل حامی باقی رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ہمیشہ نہیں رہے گی اور ایک دن اسرائیل کو حقیقی صورتحال کے سامنے گھٹنا ٹیکنا ہو گا۔ اور وہ دن بہت دور نہیں۔