گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
(کنجشک فرومایہ= ایک کمزور پرندہ، شاہیں= بہت طاقتور پرندہ)
زندگی میں وہ لمحہ بہت خوشگوار ہوتا ہے، اور دل فرحت و شادمانی سے سرشار ہوتا ہے، جب آپ کے پرورش و پرداخت میں کوءی پودا نشوونما پاکر تناور پیڑ بن کر پھل دینے لگتاہے، خاص طور سے اس وقت زیادہ خوشی ہوتی ہے جب اس پودے کو جھلسانے والی گرم ہواؤں سے آپ نے مقابلہ کیا ہو، اس کو ڈبونے والے طوفانوں کا ہمالیائی پہاڑ بن کر سامنا کیا ہو۔۔۔
میری دو چھوٹی بہنیں، جنہوں نے کبھی اسکول ، مدرسہ ،کالج کا چہرہ تک نہیں دیکھا، معاشی تنگدستی و اقتصادی کمزوری کی وجہ سے نہیں، عدم خواندگی کی وجہ سے نہیں، بلکہ گھریلو پابندیوں کی وجہ سے، سماج کے جھوٹے رسم و رواج اور غیراسلامی پابندیوں کی وجہ سے ۔۔۔
سماجی اصولوں سے بغاوت کرتے ہوئے، اور پورے خاندان سے مقابلہ کرتے ہوئے، ان لوگوں کو اپنے پاس رکھ کر خود سے پڑھانا شروع کیا۔۔۔گھر سے لیکر گاؤں محلے تک کے لوگ میرے خلاف ہو گیے، کچھ رشتے دار بھی ناراض ہوئے،کہ اب تو بچیاں بڑی ہوگییں، شادی بیاہ کراکے گھر بسانے کی عمر میں کہاں دلی لے جارہے ہو !
میں نے کہا ٹھیک ہے آپ لوگ رشتہ دیکھتے رہیے، جس دن مناسب رشتہ مل جائے میں ان لوگوں کو گھر پہنچا دونگا، چھ ماہ بھی نہیں گذرے کہ کچھ رشتوں کے آمد کی وجہ سے، اور کچھ امی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو پھر اسی ’سماجی ظالمانہ پنجرے میں ڈال کر آنا پڑا ۔۔۔لیکن اب حالات کچھ بدل چکے تھے، میں نے ان کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑنا سکھا دیا تھا، ان کو بتادیا تھا کہ ان سماجی زنجیروں کو کیسے توڑنا ہے، اور ان سے کہہ دیا تھا:‘
جو تجھ سے لپٹی بیڑیاں سمجھ نہ ان کو وستر تو
یہ بیڑیاں پگھال کے بنا لے اپنا شستر تو
اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے اندر یہ اعتماد پیدا کر دیا تھا کہ ان میں ذہانت و فطانت کی کمی نہیں، اور وہ پڑھ کر کچھ بھی بن سکتی ہیں ۔۔۔
اللہ کا فضل وکرم اور ان لوگوں کی محنت سے آج وہ دونوں D.E l.Ed., B.A., CTET, BPSC امتحانوں میں کامیابی حاصل کر کے ٹیچر بننے کا مستحق بن چکی ہیں۔ اور یہ سب کچھ گاءوں میں رہ کر، گھر کے سارے کام کاج کرتے ہوئے، والدین اور گھر کے سبھی افراد کا دیکھ بھال کرتے ہوئے کیا، فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے کیا۔ موبائل اور ٹیبلٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے کیا, کبھی فون پہ پڑھایا تو کبھی واٹسپ پہ۔
اس دوران بہت خراب حالات بھی پیش آئے، ان لوگوں کو گھر میں پڑھائی کے لئے نہ زیادہ وقت ملتا تھا اور نہ اچھا ماحول، خاص طور سے میری ایک بہن کی شادی ہوگئی ایک ایسے شخص کے ساتھ جو دینداری کے نام پر بدنما دھبہ تھا! اللہ اللہ کرکے بہت مشکل سے اس سے نجات ملی ۔۔۔
باتیں کہنے کی بہت زیادہ ہیں، لیکن وقت کی تنگ دامانی کی وجہ سے بس اتنا کہوں گا کہ اسلام کی صحیح تعلیم کے دایرے میں رہ کر بچیوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلائیں، ان کا حوصلہ بڑھائیں، ان کے اندر کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کریں۔۔۔شادی کرانی ہو تو شادی بھی کرادیں، (صحیح وقت پر شادی ضروری ہے،) لیکن اس کی پڑھائی نہ روکیں ، لڑکے سے اور لڑکے کی فیملی سے تحریری معاہدہ کرالیں کہ میری بچی کی پڑھائی نہیں رکنی چاہیے، اور ایسا کرنا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔
Bringham Young، ایک مشہور دانشور نے کہا تھا کہ " ایک مرد کو تعلیم دینا ایک فرد کو تعلیم دینے کے برابر ہے، جبکہ ’’ایک عورت کو تعلیم دینا ایک پوری نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کے برابر ہے‘‘. " اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ماں کا گود پہلا تعلیم گاہ ہوتا ہے، چند سالوں میں بچے ماؤں سے اتنا کچھ سیکھ سکتے ہیں جتنا دسیوں سالوں میں باہر نہیں سیکھ سکتے ۔ مولانا نذرالحفیظ رحمتہ اللہ علیہ علم نفسیات کے کلاس میں اس پر بہت تاکید کرتے ہوئے کہتے تھے کہ بچے اپنے ماحول سے اتنا زیادہ اور اتنا فاسٹ سیکھتے ہیں کہ اگر ان کو جانوروں کے بیچ رکھ دوگے تو وہ جانور کی زبان بھی سیکھ جاءیں گے، اور اسی طرح بولنے لگیں گے، اور یہ تجربہ سے ثابت کیا جا چکا ہے ۔
’آج نیوٹن ( Nuton) کو کون نہیں جانتا، جس نے قوت کشش کا اصول دیا( Gravitational Force)، وہی نیوٹن جس کے جیب میں ٹیچر نے ایک پرچی رکھ کر کہا تھا کہ تم دوبارہ اسکول میں قدم نہیں رکھنا‘، وہ ننھا بچہ روتا ہوا ماں کے پاس گیا، اور وہ پرچی ماں کے ہاتھ تھما دی، اور معصومانہ انداز میں پوچھا: مماں پرچی میں کیا لکھا ہے؟ ماں نے جب پرچی کھول کر دیکھا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں، دل ٹوٹ گیا ۔۔۔لیکن وہ خاتون اعلی تعلیم یافتہ اور ذہین تھی، اس نے اپنی ذہانت سے کام لیتے ہوئے اپنے جگر کے ٹکڑے کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ’بیٹا اس میں لکھا ہے کہ, "تیرا بیٹا بہت ذہین ہے اس لیے اسے اسکول میں پڑھنے کی ضرورت نہیں‘," جبکہ پرچی میں ٹیچر نے یہ لکھا تھا کہ" تیرا بیٹا بدھو ہے، کند ذہن اور غبی ہے، یہ میرے اسکول میں پڑھنے کے لائق نہیں، اس لیے آج کے بعد اس کو نہیں بھیجیے گا,"
اس تعلیم یافتہ اور پرعزم خاتون نے قسم کھائی کہ میں خود اپنے لخت جگر کو پڑھاؤں گی۔۔۔صدیوں گذر جانے کے بعد بھی اس خاتون کی اعلی تعلیم اور ذہانت کا نتیجہ ہر سو دیکھا جا سکتا ہے؛ سائنس کی ہر کتاب ، ہر اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں، ہر انسان کی زندگی کے اکثر گوشوں میں، پوری دنیا ہی میں نہیں بلکہ آسمانوں میں بھی قوت کشش کے اصول کا استعمال کرکے نت نئے ایجادات کیے جا رہے ہیں۔۔۔
آج پوری دنیا میں مسلمان جن حالات کا سامنا کررہے ہیں، جن آزمایشوں سے گذررہے ہیں، خاص طور سے اپنے ملک میں ، ان کا سامنا کرنے کے لئے ’مسلمانوں کو تعلیم اور اقتصادی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا، پولیس، فوج، سول سروسز ، میڈیکل، ٹیکنیکل، اور کمپیوٹر سائنسز میں قائدانہ رول ادا کرنا ہوگا، صرف دوسروں کے مصنوعات و ایجادات اور ان کی بنائی ہوئی چیزیں استعمال نہیں کرنا، بلکہ خود بھی بناکر دوسروں تک پہنچانا، خود بھی ایجادات و اختراعات کرنا، اور دوسروں سے صرف لینا نہیں بلکہ دینا بھی سیکھنا ہوگا، " اليد العليا خير من اليد السفلي" کا عملی زندگی میں ثبوت دینا ہوگا اور ان سب میں بچوں اور بچیوں دونوں کو برابر مواقع فراہم کرنا ہوگا, تبھی مسلمانوں کے سر سے مصایب کے بادل چھٹ سکتے ہیں ۔
آخر میں ان تمام بہنوں کو صدآفریں اور مبارکباد جو سماجی اور غیر اسلامی بیڑیوں کو توڑ کر اعلی تعلیمی میدان فتح کر رہی ہیں، ان کے والدین اور رشتے داروں کو بھی صدآفریں!
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نیو دلہی