Masarrat
Masarrat Urdu

ہندوستان میں ڈیڑھ لاکھ مخطوطات ہیں

Thumb


 ہندوستان  عربی فارسی مخطوطات کے اعتبار سے نہ صرف پورے عالم اسلام میں بلکہ پوری دنیا میں  شہرت ہے ملک عزیز مخطوطات کے نقطہ نظر سے ترکی اور ایران کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔  ۔عربی فارسی کے یہ مخطوطات نہ صرف ملک عظیم کا قومی سرمایہ ہیں بلکہ ہماری مشترکہ تہذیب  وثقافت اور ادب کے ناقابل تردیدی ثبوت بھی ہیں ، ہندوستان میں بہت سارے نادر ونایاب مخطوطات مختلف مدارس ۔مساجد ۔اور خانقاہوں میں موجود ہیں۔ان کا تحفظ تحقیق وتدوین ایک قومی فریضہ ہے اس کےلئے حکومت ہند کے ساتھ ساتھ علماء۔باحثین ۔اسکالرس کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔  ۔ یہ مخطوطات جب تک محقق ہو کر منظر عام پر نہ آجائیں ان کی حیثیت ایک طرح سے دفینہ کی ہے ۔ ان دفینوں اور نگینوں کو تحقیق کرکے وقف خاص و عام کردینے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے مخطوطات کی تدوین کی ٹریننگ دینے اور اس علمی اور تحقیقی ذوق کو عام کرنے اور محققین کی قدر افزائی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ ۔ جب عالم اسلام پر تاتاریوں کی یورش ہوئی تھی اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی مستحکم حکومت قائم تھی  ۔اسلامی ملکوں سے بیشمار علماء اور مصنفین اپنی علمی کتابوں اور مخطوطات کو اور علمی جواہر پاروں کو سینوں سے لگائے ہوئے ہندوستان پہنچے تھے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کے کتاب خانے مخطوطات کی بے بہار ثروت سے نہال اور مالا مال ہیں ۔ دائرہ المعارف العثمانیہ حیدرآباد ،سائنٹفک سوسا ئٹی کلکتہ ۔خدا بخش لائبریری پٹنہ رضا لائبریری رام پور ، مولانا ابوالکلام آزاد لائبریری اے ایم یو  علی گڑھ ، ٹونک ، کلکتہ اور دوسرے شہروں کے کتاب خانوں میں مخطوطات کے ذخائر ہیں جو کسی محقق کے دست ہنرمند اور مرد خردمند کے منتظر ہیں ۔
  تحقیق دراصل متن کو تصویب و تصحیح کے بعد منظر عام پر لانے کا نام ہے ۔ اس کام میں متن کے مختلف نسخوں کا تقابلی مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور متن کو تحریف اور تصحیف سے پاک کرنا پڑتا ہے ۔ الحاقات کی نشاندہی کرنی پڑتی ہے اور مختلف رسم خط پڑھنے میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے ۔ کیونکہ تمام مخطوطے ایک ہی رسم خط میں نہیں ہوتے ہیں اور پھر ہر عہد کا رسم خط الگ ہوتا ہے ۔ اگر نسخہ خوش خط لکھا ہوا نہ ہو تو دشواریاں دوچند ہوجاتی ہیں اور مخطوطے کا محقق قدم قدم پر دشواریوں کے خارزار سے گزرتا ہے اور اگر کوئی نسخہ شکست و ریخت اور کرم خوردگی کا شکار ہے تو محقق کو تحقیق کے سفر میں خطرات اور مصائب کو انگیز کرنا پڑتا ہے ۔ مخطوطے کو پڑھنے کے لئے بہت زیادہ مشق و مزاولت کی ضرورت ہے ۔ اسی لئے سا وادی پُرخار میں کوئی آسانی سے آنے کی ہمت نہیں کرتا ہے ۔ اسی طرح ایک محقق کو حواشی تحریر کرنے پڑتے ہیں ۔حواشی میں متن کے الفاظ کی وضاحت کرنی پڑتی ہے ، مختلف نسخوں کے درمیان اگر فرق ہو تو وہ بھی بیان کرنا پڑتا ہے ۔ اگر محقق جس مخطوطے پر کام کررہا ہے اس کا کوئی حصہ ناقص ہو تو دوسرے نسخوں کو سامنے رکھ کر اس کی تکمیل کرنی پڑتی ہے ، اس کا ذکر اسے حاشیے میں کرنا پڑتا ہے ۔ املا درست کرنا ہوتاہے اور رموز اوقاف کا لحاظ کرنا پڑتا ہے ۔ مقدمہ میں مخطوطے کی اہمیت اجاگر کرنی پڑتی ہے اگرقرآن کی آیتیں اور حدیثیں یا اشعار یا اقوال مخطوطے میں ہوں تو ان کے لئے مصادر اور مراجع کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے ۔ اماکن و اشخاص کا تذکرہ اگر ہے تو ان کا تعارف بھی لکھنا ہوتا ہے ۔ تعیین زمانہ کے لئے تاریخ و سیر کی کتابوں کا کھنگالا جاتا ہے  ، مشکل اور مغلق الفاظ اور اصطلاحات کی حاشیے میں تشریح بھی ایڈٹ کرنے والے کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اگر کسی ناشر کے پاس کسی معاصر مصنف کا کوئی نیا مخطوطہ آتا ہے جسے شائع کرنا ہے تو پیراگراف کو گھٹا بڑھانا زبان و بیان کو بہتر بنانا ، تکرار کے عیب کو دور کرنا یہ سب محقق کی ذمہ داری ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحقیق و تدوین کا کام کس قدر مشکل اور نازک ہے اور اس کے لئے کس قدر علمی صلاحیت درکار ہے ۔ یہ کام بہت محنت اور دیدہ ریزی کا طالب ہے ۔ بہت باریک بینی اور دقت نظری کا طلبگار ہے ۔ اس کام میں تمام ذہنی توانائیوں کو بروئے کار لانا ہوتا ہے ۔ یہ چونٹیوں کی طرح شکر کے دانے جمع کرنے کا کام ہے ۔ یہ بادصبا کی طرح گل کترنا ہے شبنم کی طرح پھولوں کو نہلانا ہے یہ عروس نو کو آراستہ کرنا ہے اور اس کی حنا بندی کرنا ہے ۔ یہ ایک پوشیدہ گنج گرانمایہ کو علماء اور ارباب ذوق تک پہنچانا ہے ۔
مخطوطہ کسی زبان کا ہو وہ جتنا زیادہ قدیم ہوگا اس کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ ہندوستان میں جو لوگ تحقیق و تدوین میں مشہور ہوئے ان میں نمایاں نام استاذ عبد العزیز المیمنی ۔مالانا  امتیاز علی خان عرشی ، استاذ نثار احمد فاروقی ۔استاذ خورشید احمد فارق۔ حافظ محمود خان شیرانی ، قاضی عبدالودود ، ڈاکٹر حمید اللہ ، پروفیسر عبدالمعید خان ، ابو محفوظ الکریم المعصومی  ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی ، ، پروفیسر مختار الدین آرز اور پروفیسر نعمان خان ۔ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی۔ڈاکٹر کلب صادق نقوی ۔ڈاکٹر جمشید احمد ندوی کے قابل ذکر ہیں ۔ عربی مخطوطات کی تحقیق کے لئے عربی زبان اور قواعد سے واقفیت اور جدید دور کے تحقیقی اور علمی طریقوں سے آشنائی ضروری ہے ۔
واضح رہے کہ  شعبہ عربی کے ریسرچ اسکالر زبیر عالم اصلاحی کو ان کے تحقیقی مقالہ ’تحقیق المخطوطات العربیۃ فی الھند:دراسۃ نقدیۃ‘ یعنی’ہندوستان میں تحقیق شدہ عربی مخطوطات کا تنقیدی جائزہ‘کے لیے ہندوستان کی سب سے بڑی ’یونیورسٹی آف دہلی‘ کی جانب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔زبیر عالم نے اپنا تحقیقی مقالہ شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی دہلی کے پروفیسر ڈاکٹر سید حسین اختر کی نگرانی میں مکمل کیا ہے۔اس تحقیقی مقالہ کے ممتحن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ عربی کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر سمیع اختر فلاحی تھے۔اس موقع پر صدر شعبہ عربی پروفیسر نعیم الحسن اثری،پروفیسر سید حسین اختر،ڈاکٹر مجیب اختر،ڈاکٹر محمد اکرم،ڈاکٹر اصغر محمود سمیت شعبہ عربی کے دیگر اساتذہ اور اسکالر موجود تھے۔
اس موقع پر زبیر عالم نے اپنے والدین، نگراں،اساتذہ اور دوستوں کا شکریہ ادا کیا، جن کی شفقت، حوصلہ افزائی نے مقالہ کے بعض دشوار گزار مراحل میں ان کی مدد کی اور مقالہ کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچا۔زبیر عالم اصلاحی کا تعلق ضلع ارریہ کے ایک سرحدی گاؤں ''بابوان''سے ہے۔یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ سیمانچل کا علاقہ تعلیم وتعلم اور جملہ وسائل تعمیر و ترقی میں ہنوز پسماندہ شمار کیا جاتا ہے۔اس لحاظ سے زبیر عالم کو ’ڈاکٹر آف فلوسفی‘ملناگاوں اور علاقے کیلئے باعث صد افتخار ہے۔
 زبیر عالم نے کہاکہ ہندوستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ مخطوطات ہیں جن میں 40 فیصد مخطوطات عربی میں ہیں جب کہ ساٹھ فیصد دوسری زبانوں میں کے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں مخطوطات کے تحفظ کا کوئی باضابطہ نظم نہیں ہے۔خاص طور پر خانقاہوں میں موجودمخطوطات تباہی کے دہانے پر ہیں، بہت سے مخطوطات دیمک کی نذر ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح کے مقامات پر موجود مخطوطات کو تحفظ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ تحقیق شدہ مخطوطات کو منتخب کیا، معیار کیا ہے، کیا ضابطے تھے، ان ضابطوں پر کتنا عمل ہوا، اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ علی گڑھ اور دائرہ المعارف میں سب سے زیادہ مخطوطات ہیں۔

 

Ads