Masarrat
Masarrat Urdu

ناشادؔ اورنگ آبادی کی غزلیہ شاعری


(شعری مجموعہ ”رختِ سفر“ کی روشنی میں)

محمد عین الحق خان اپنے قلمی نام ناشادؔ اورنگ آبادی سے مشہور و معروف ہیں۔ ان کی پیدائش ۵۱/ جنوری ۵۳۹۱ء کو شمشیر نگر ضلع اورنگ آباد (بہار) میں ہوئی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد محکمہ ریلوے میں ملازمت کرتے رہے اور وہیں سے سبکدوش ہوئے۔ انہوں نے صرف تیرہ سال کی عمر میں جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے شعر کہنا شروع کیا۔ باضابطہ طور پر ۵۶۹۱ء سے شاعری کرنے لگے۔ 
پیش نظر شعری مجموعہ ”رخت سفر“ سے قبل ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا مجموعہئ کلام ”پرواز سخن“ ۰۹۹۱ء میں بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہئ کلام ”میل کا پتھر“ ہندی رسم الخط میں ۱۹۹۱ء میں شائع ہوا۔ تیسرا مجموعہئ کلام ”لمحے لمحے کا سفر“ بہار اردو راجیہ بھاشا پٹنہ کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ہندی رسم الخط میں ایک کتاب ”ہمسفر غزلیں“ کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ 
ناشادؔ اورنگ آبادی کا نام اردو دنیا میں معروف رہا ہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں مختلف اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہی ہیں اور مشاعروں میں بھی داد و تحسین وصول کرتی رہی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی، غلام ربانی تاباں، پروفیسر عنوان چشتی، پروفیسر ممتاز احمد، پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر وہاب اشرفی،پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر لطف الرحمن، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی، اویس احمد دوراں اور دیگر کئی معروف اہل قلم حضرات کی محبتیں اور نیک خواہشات ان کے شامل حال رہی ہیں۔ ان کی شاعری کے ساتھ ان کی شخصیت بھی متاثر کرنے والی ہیں۔
ان کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اردو ادب کی معروف شخصیت فرد الحسن فرد نے لکھاہے:
”ناشادؔ اورنگ آبادی نے حمد، نعت او رمنقبت کے علاوہ نظمیں بھی کہی ہیں۔ ان کی ایک نظم ”جاں سے پیارا وطن“ ۸۸۹۱ء میں مڈل اسکول کے نصاب میں بھی شامل ہوئی اور تقریباً دس برسوں تک شامل نصاب رہی لیکن سچ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے فن کی اساس غزل پر رکھی ہے اور انہوں نے غزل کی پاسداری کا پورا لحاظ رکھا ہے۔ اپنے ۲۵ سالہ شعری سفر میں انہوں نے مختلف تحریکات کو دیکھا اور ارادی یا غیر ارادی طور پر متاثر بھی ہوئے لیکن غزل کے مزاج و منہاج کا ہمیشہ پاس رکھا۔“ 
اردو زبان و ادب کے معروف قلمکار پروفیسر علیم اللہ حالی نے ناشاد کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
”ناشاد کی شاعری میں ایسی کئی پنہاں و ظاہر خوبیاں ہیں جو اہل نظر سے خراج توصیف حاصل کرلیتی ہیں۔ اول تو یہ ہے کہ شعری اظہار میں ان کی سادگی، بے ریائی، عدم تصنع اور راست اظہار جذبات کی خوبی قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ بات اگر دل سے نکلتی ہو تو اسے دل تک پہنچانے کے لئے لفظی آرائش و زیبائش کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ناشاد اورنگ آبادی نے غزلیہ شاعری کو حدیث ذات تک محدود رکھنے میں ہی اس کی حرمت و عظمت محسوس کی ہے۔“
ڈاکٹر خورشید انور نے ان کی شاعرانہ خوبیوں کا اعتراف ان لفظوں میں کیا ہے:
”ناشاد اورنگ آبادی کی شاعری نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ شاعری ان کا عقیدہ ہے، ایمان ہے۔ جتنی محبت انہیں ہمیشہ سے اپنے فن سے رہی ہے اتنی محبت شاید انہوں نے اپنے آپ سے نہیں کی ہے۔ اپنے وجود کے ہر زخم، ہر درد کو آنسوؤں کو اور بے ساختہ چیخوں کو اپنے اشعار میں ڈھالنے کے فن کو ایک شاہکار ہنر میں تبدیل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔“
ناشادؔ اورنگ آبادی کو ان کے ادبی و شعری خدمات کے لئے کئی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ غزلیں، نظمیں، قطعات، رباعی، حمد، نعت، منقبت لکھتے رہے ہیں۔ لیکن اپنے مضمون کی مناسبت سے میں یہاں صرف ان کی غزلوں کے حوالے سے اپنی تحریر پر فوکس کروں گا۔ 
ناشاد اورنگ آبادی نے اپنے فن کی اساس غزلوں پر رکھی ہے۔ ان کی غزلوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ترقی پسند اثرات اور جدت پسندی کا ملا جلا پرتو نظر آتا ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں جو مجھے بہت متاثر کرتے ہیں:
چلے آئے کیسے اجازت سے پہلے
ذرا سوچ لیتے بغاوت سے پہلے
خدا بھی معاف اس کو کردے یہ سچ ہے
جو سر کو جھکادے ندامت سے پہلے
٭٭
غزلوں کی ہر طرح سے کرتے ہیں حفاظت
بھولے سے بھی نظموں کی تجارت نہیں کرتے
اردو کے کچھ ایسے بھی سخنور ہیں جو ناشادؔ
اردو میں کلام اپنا عبارت نہیں کرتے
٭٭
جسے احساس ہے اپنی خطا کا
وہی بس خاص بندہ ہے خدا ہے
میں اپنے آپ سے بھی مطمئن ہوں 
بڑا احسان ہے مجھ پر خدا کا
انسان کچھ کرنے اور پانے کی جستجو میں کوششیں جاری رکھتا ہے۔ لیکن ساری کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ انسان کی زندگی میں قسمت کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ ناشادؔ صاحب نے بھی اپنے ایسے خیالات و احساسات کی ترجمانی ان اشعار میں پیش کی ہے:
سب کی قسمت میں نہیں شاعر دوراں ہونا
سخت مشکل ہے یہاں شادؔ کا شاداں ہونا
آپ نے چاہا نہیں درد کا درماں ہونا
کتنا آسان تھا دشوار کا آساں ہونا
آج ہر طرف سماجی اور اخلاقی گراوٹ کا بول بالا ہے۔ دولت کی ہوس لطیف احساسات کو ایسے بہائے لے جارہی ہے کہ انسان کی دردمندیاں بے معنی اور اجتماعی درد بے اساس ہوکر رہ گیا ہے۔ معاشری اقدار کا زوال، بدلے ہوئے انداز سے ظلم و استحصال، بے یقینی سے بھرے ہوئے حالات کو ہر اچھے اور سچے شاعر نے رد کیا ہے۔ اس سلسلے میں ناشادؔ اورنگ آبادی کا انداز دیکھئے:
کانپ سکتی ہے ابھی بھی حدِ امکاں مجھ سے
خوب واقف ہے رگِ گردشِ دوراں مجھ سے
عشق کی بات نہ کر عشق ہے معصوم بہت
کس نے چھینا ہے مرا لمحہئ تاباں مجھ سے
ال دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی
دوب کی طرح جو دب دب کے ابھرتے جائیں 
ہم جلاتے رہے ہر روز وفاؤں کے چراغ
اور وہ جان کے وعدوں سے مکرتے جائیں 
ناشاد اورنگ آبادی کی غزلوں کی زبان سادہ، سلیس، عام فہم ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں کو بھاری بھرکم الفاظ اور فارسی اضافتوں سے بوجھل نہیں ہونے دیا ہے۔ ان میں رفتار، صفائی اور سادگی ہونے کی وجہ سے وہ سلجھی ہوئی اور صاف ستھری ہوپائی ہیں۔ یہ غزلیں اپنے ماحول، اپنی دھرتی اور موضوع کے اعتبار سے عام سماج سے جڑی ہیں۔ اس لئے قارئین ان کی غزلوں کی نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
چراغ بن کے جو عشق بتاں روشن ہے
وہی اندھیرا مرے سائباں میں روشن ہے
کوئی تو ہے جو میرے اندرون جلتا ہے
”کوئی چراغ تو دل کے مکاں میں روشن ہے“
٭٭
چہرہ بدل کے منظر سرخاب آئے گا
آگے بڑھے تو خون کا سیلاب آئے گا
خوف و ہراس غیر یقینی ہے ہر طرف
شہرِ سکوں میں پھر کوئی سیلاب آئے گا
آج کے اس پر آشوب دور میں انسانوں کے ہاتھوں میں پھول لیکن دل میں حسد کے کانٹے، سنبھل کی چلنے کی ہدایت لیکن راستہ روک دینے کی تاک میں بیٹھے ہوگ، کسی کی خوشی میں غم اور غم میں خوشی مناتے لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ان سب کی طرف ناشادؔ اورنگ آبادی نے اپنے اشعار پیش کئے ہیں۔ ملاحظہ کریں چند اشعار:
راز کی بات وہ غیروں کو بتا دیتا ہے
اس طرح میری محبت کا صلہ دیتا ہے
گھر کے باہر کی فضا میں سانس لیتا ہوں مگر
سوچتا رہتا ہوں کہ زنجیر میرے ساتھ ہے
ان کی نظر کی چال کو تھا ناپنا محال
ویسے کمال رکھتے تھے ہم بھی حساب میں 
شاعر بے بسی، پریشانی، حزن و ملال کے باوجود بھی اپنے دل میں کچھ امید رکھے ہوئے ہے کہ غم کے نجات کی صورت آپسی دوستی اور بھائی چارہ میں ہی پوشیدہ ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
اے دوست مجھ کو تیری ضرورت ہے آج بھی
غم سے نجات کی یہی صورت ہے آج بھی
کٹتے ہیں کیسے میرے شب و روز کچھ نہ پوچھ
تیرے کرم کی مجھ کو ضرورت ہے آج بھی
ناشاد اورنگ آبادی صاحب ریاکاری کو پسند نہیں کرتے۔ سادگی پسند ہونے کے ناطے وہ اداکاری سے گریز کرتے ہیں۔ وقت کی ستم ظریفی کہ صدیوں میں رشتوں کے جو محل تیار ہوتے ہیں لمحوں کی سازش سے تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ وہ وفا، دوستی اور قربانی کے چراغ روں کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کے ایسے ہی احساسات کی ترجمانی کرتے چند اشعار:
جو لوگ پوچھتے ہیں کہ ناشادؔ کیوں ہوں میں 
شاید دلوں میں ان کے کدورت ہے آج بھی
٭٭
اہم اہل فن ہیں کہیں گے جو دل پہ بیتی ہے
چڑھیں گے دار پہ ہم پھر بھی مسکرائیں گے
٭٭
پیری بھی آنے والی ہے اتنا رہے خیال
خود کو نہ یوں لٹائیے عہد شباب میں 
ناشاد اورنگ آبادی کے بہت سے غزلیہ اشعار ان کی سادگی پسند طبیعت اور اخلاص کا پتہ دیتی ہیں۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
مجھ پہ اتنا ہی کرم فرمائیے
جب کبھی فرصت ملے آجائیے
میری دنیا اور تمنا آپ ہیں 
میرے ارماں کا چمن مہکایئے
٭٭
نہ محفل میں نہ نغموں میں، نہ غزلیں گنگنانے میں 
سکوں ملتا ہے مجھ کو اپنا حالِ دل سنانے میں 
ہزاروں غم ہیں اے ناشادؔ لیکن شاد رہتا ہوں 
کٹی ہے زندگی اپنی یوں ہی ہنسنے ہنسانے میں 
ناشادؔ صاحب ایک غزل ”قومی غزل“ کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ اس میں ایک شاعر کی آرزو کو بیان کرتے ہوئے موصوف اپنے ملک کی ترقی و کامرانی کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ ان کی خواہش کے دیش میں امن و امان کا ماحول رہے۔ پر امن فضا ہو اور ایسا سکوت جس پہ تقدیر بھی فدا ہو۔ اپنے ان خیالات کی ترجمانی غزلیہ اشعار کی زبانی وہ اس طرح کرتے ہیں:
موسم میرے وطن کا ہمیشہ جواں رہے
آباد اس کی یاد سے دل کا مکاں رہے
بے حد بلند و بالا یہ باغِ جناں رہے
محتاج اب کسی کا نہ ہندوستاں رہے
اے کاش میرے دیش میں امن و اماں رہے
بستی جلے نہ خون کا دریا رواں رہے
ناشادؔ اورنگ آبادی اردو زبان وادب سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ اس لئے وہ میرؔ، ظفرؔ اور داغؔ کی عظمت کو باقی رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں دعا گو ہیں کہ زندگی ایسی ہو جس میں اللہ کا خوف ہو اور مرنے کا ڈر ہر دم رہے۔ دیکھئے چند اشعار اور محظوظ ہونے کی کوشش کریں:
ختم ہوجائے نہ اردو بال و پر باقی رہے
عظمتِ میرؔ و ظفرؔ، داغؔ و ظفرؔ باقی رہے
بانٹئے علم و ہنر لوگوں میں لیکن شرط ہے
کم سے کم اپنا بھی تو دستِ ہنر باقی رہے
سیکھئے ناشادؔ سے معراجِ حسنِ زندگی
دل میں ہو خوف خدا مرنے کا ڈر باقی رہے
اس طرح ناشاد صاحب کی اور بھی بہت سی غزلیں ہیں جو قارئین کو کافی متاثر کرتی ہیں۔ چند صفحات میں ان کی شاعری کا جائزہ لینا بہت ہی مشکل امر ہے۔ اخیر میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ وحدہٗ لاشریک انہیں لمبی حیات صحت کے ساتھ عطا کرے تاکہ نئی نسلوں پر ان کا سایہ باقی رہے۔ 

پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
موبائل:9431414808

Ads