ندی کنارے بیٹھ کے کب تک سوچو گے
زور کہاں کم ہوگا بہتے پانی کا
یہودیوں کاعقیدہ ہے کہ وہ دنیا کے مالک ہیں، اس کے لیے وہ صدیوں سے سرگرداں بھی ہیں اوران کے نزدیک وہ دن بھی بلاشبہ آئے گا جب دنیا کے تمام مذاہب پامال ہوجائیں گے اوردنیا بھر کو غلام بنایاجاسکے گا۔ صہیونیوں کی یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کئی یہودی تنظیموں کی جانب سے یہ بات میڈیا میں بھی آچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فلسطینیوں کے گھر(بیت المقدس) میں امریکی سفارت خانہ کھلوا کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ’بیت المقدس‘ اسرائیل کا حصہ ہے۔ دنیابھر میں موجود اسرائیلی تنظیمیں اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلہ میں مشہور ہندوستانی مضمون نگار وصحافی اللہ بخش فریدی کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی سے یہودی ایجنڈے میں تیزی آئی ہے اور موجودہ دہشت گردی کو اسلام اورمسلمانوں سے جوڑنابھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہودی میڈیا اس کاپروپیگنڈہ پوری دنیا میں 24گھنٹے کرتارہتاہے۔ اس کے علاوہ یہودیوں کی مشہور ومعروف تنظیمیں فری میسن اور ایلیومیٹینس جیسی کئی تنظیمیں اس سمت میں کام کررہی ہیں۔
عالمی اقتدار تک رسائی کے یہودیوں کے اس منصوبے کو دور جدید کی ضرورتوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے کا کام 1770میں ’فرنٹ مین ویشاپٹ کوسونپاگیا،جوخودایک مسیحی ماہرقانون اور ایک کیتھولک پادری تھا مگر اس کے انسانیت دشمن نظریات اور شرانگیزیوں کی وجہ سے اسے چرچ سے نکال دیاگیا تھا لہٰذا اس نے مسیحیت چھوڑ کر یہودیت کو اپنا لیاتھا۔ صدیوں پرانے صہیونی (پروٹوکول) کونئے دور کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کام کام اس کے ذمے سونپاگیا تاکہ یہودیوں کو اپنے اصل مقصد میں کامیابی مل سکے۔ ویشاپٹ نے یہ کام ایک معروف جرمن یہودی سونارروتھ شیلڈ کی معاونت سے 1776میں مکمل کرلیا۔ ویشاپٹ کی یہ خفیہ تنظیم ایلیومیٹینس یعنی ’داعیان حق‘ یا’روحانیت کی روشنی‘کی تشکیل 1760میں ہوئی تھی۔اس تنظیم کا نام اس وقت منظرعام پرابھرکرآیا جب یہ شیطانی منصوبہ پایہئ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس تنظیم کا بنیادی ہدف بھی صہیونیت کے ایجنڈے یعنی یہودیوں کے دنیا پرحکومت کرنے کاخواب تھا۔ یہودیوں کے اسی ناپاک عزائم کا حامل عبداللہ بن سبا اورحسن بن سبا (لعنۃ اللہ علیہما)بھی تھا،جس نے خلافت راشدہ کے عظیم فطری نظام حکومت کے خلاف درپردہ جدوجہدشروع کی تھی۔ اس دہشت گرد تنظیم نے پوری دنیا میں صرف ایک حکمراں کے کنٹرول کی بڑے سائنسی انداز میں منصوبہ بندی کی۔ 1840 میں ’روحانیت‘ کے ان داعیوں نے جنرل البرٹ پاٹیک کو دنیا میں صرف ایک حکمراں کی حکمرانی کاذمہ سونپا۔ اس نے 1859سے 1871کے دوران سخت محنت اور عرق ریزی اور یکسوئی سے اس منصوبے کو عملی شکل دی اورعالمی سطح پرتین بڑے انقلابیوں اورتین بڑی جنگوں کی منصوبہ بندی کی۔ ممکنہ تینوں جنگوں کے فریقین طے کیے اور یہ بھی طے کیا کہ کس جنگ میں کس فریق کو کن ذرائع سے شکست دے کر، کیا نتائج حاصل کرنے ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے واقعات ونقصات سے ہم اچھی طرح واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کے پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں نے کس طرح خفیہ طریقہ سے برطانیہ اورامریکہ کی مدد کی،جس کی وجہ سے جرمنی اور ترکی کو شکست کاسامناکرناپڑا۔ جنرل البرٹ پائیک نے دوسری جنگ عظیم کے جو مناظر اور مقاصد طے کیے تھے کہ برطانیہ اس جنگ میں حصہ لے گا اور برطانوی خانوادہ صہیونیت کا سر پرست ہوگا۔ترکی کو ہر حال میں برطانیہ کے خلاف کھڑاکیا جائے گا اور ترکی کو ہر حالت میں شکست دی جائے گی کیونکہ اس نے ارض فلسطین میں یہودیوں کو زمین فروخت کرنے سے انکار کیا تھا۔ اس جنگ کا ایک اورمقصدتھا کہ غیریہودیوں کو ایسی جنگوں میں الجھادیاجائے کہ انہیں کسی علاقہ پر مستقل قبضہ حاصل نہ ہوسکے اور جنگ کے نتیجے میں معاشی تباہی اور بدحالی کے وہ شکار ہوں اور پہلے سے فراق میں بیٹھے ہوئے مالیاتی ادارے انہیں مددفراہم کریں۔اس طرح ہماری بے شمار نگراں آنکھیں ان پر مسلّط ہو کر ہماری نا گزیرضرورتوں کو پورا کر سکیں۔
پہلی، دوسری جنگ عظیم میں پہلے یوروپ نے بے شمارکمزورملکوں پر قبضہ کیا مگر وہ اپنے اس قبضہ کوبرقرارنہ رکھ سکا،پھر یہودیوں نے نئے مالیاتی ادارے بڑے خوبصورت ناموں اور دعوؤں سے ان علاقوں میں داخل کیے اور سودی امداد سے سب کو یرغمال بناتے چلے گئے۔دوسری جنگیں عظیم کے بعد کتنی جنگیں ہوئیں وہ ہم سب جانتے ہیں اور ان میں ایسا بھی ہوا کہ ادھر جنگ ہو رہی تھی اور ادھر جنگ کروانے والے یہودی اور ان کے گماشتہ اقوام اس کے مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مددکرنے کی باتیں بھی کرتے رہے۔یہ کیسی جنگ ہے کہ اس میں آپ دشمن کو پانی پلا پلا کر مار رہے ہیں اور یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپنے دشمن کی عمارت کو گرا کر آپ پھر نئے سرے سے ترقّی اور عمارتوں کو بنانے کی بات کرتے ہیں۔اس سے لگتا ہے کہ یہ لوگ ایک سوچے سمجھے منصوبہ پر عمل پیراہیں، جس کا ہدف اقتدار کاحصول ہے۔ انھوں نے ہی ’لیگ آف نیشن‘ کی تشکیل کی پھر اس کا نام ’یواین او‘رکھ دیا۔ اس کے کیاعزائم ہیں، یہ ہم میں سے ہرباشعورشخص جانتا ہے۔ اقوام متحدہ میں یہودیوں کے تسلط کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے10 اہم اداروں کے اہم ترین عہدوں پر73یہودی فائز ہوئے،یہی نہیں بلکہ یواین او کے نیویارک دفتر میں 22شعبوں کے سربراہ یہودی بنائے گئے۔ یہ سب انتہائی حساس شعبے ہیں، جو اس بین الااقوامی تنظیم کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ یونیسکو میں نوسربراہ یہودی بنائے گئے، آئی ایل او کی 30شاخیں تو مکمل طور پر یہودی حکام کی تحویل میں دی گئیں۔ ایف اے او کے گیارہ شعبوں کی سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔عالمی بینک میں سے6اور آئی ایم ایف کے 9شعبوں کے 6سربراہوں کا تعلق یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری میسن سے ہے۔یہ تمام حساس عہدے یہودیوں کے پاس ہیں اوراس طرح بین الاقوامی امور پروہ اثرانداز ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار یہودی اوران کے گماشتے ہرہرشعبہ میں موجود ہیں۔ اب ذرا آپ یہاں سوچیں کہ اگر اتنے زیادہ افراد کسی مرکزی تنظیم کے زیراثر کام کررہے ہوں تو وہ عالمی سیاسیات، معاشیات، مالیات کارخ جس طرف چاہیں نہیں موڑ سکتے ہیں؟
اللہ بخش فریدی کے متذکرہ خیال کو سامنے رکھ کرتمام دنیا کے مسلمان اب اپنے گریبانوں میں جھانکیں اوردیکھیں کہ وہ اپنی قوم کے لیے کیا کرر ہے ہیں اور اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تواپنی عالمی تنظیموں کاحال دیکھ لیں جس میں 80فیصد سے زیادہ وہ لوگ نظر آئیں گے جو قوم کو فائدہ کم، نقصان زیادہ پہنچا رہے ہیں۔
9971730422
tarinhanif@gmail.com