ڈائریکٹرمرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند
انسان کی تخلیق اور اسے بولنے ”بیان“کی صلاحیت ودیعت کرنے کا ذکر سورہ رحمن کی ابتدائی چار آیات میں ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس سورہ میں اللہ کی بہت سی نعمتوں کا تذکرہ ہے،ان میں ’بیان‘ کی صفت کو بھی اس کی نعمت قرار دیا گیا ہے۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہاں پر لفظ ’کلام‘ نہیں بلکہ ’لفظ ’بیان‘ کا استعمال ہوا ہے۔کیونکہ بیان اور کلام میں بڑا فرق ہے۔ بیان میں صرف زبان کا استعمال نہیں ہوتا، جس طرح کلام میں ہوتا ہے۔کلام بیان ہی کا ایک حصہ ہے۔ بیان میں انسان کی مختلف صلاحیتوں، قوتوں، نظام اور اعضا کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ صلاحیت ایک شعبہ (faculty) ہے جس کا تعلق انسان کے عصبی نظام، ذہنی صلا حیت اور قوت گویائی سے ہے۔کسی بات کو بیان کرنے سے پہلے دماغ میں انتہائی پیچیدہ عمل پیش آتا ہے۔ اس عمل میں دماغ کے تینوں حصے یعنی تحت الشعور، لا شعور اور شعور اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بیان کا تعلق حال کے احساسات سے بھی ہوتا ہے، ماضی کے واقعات و تجربات سے بھی اور بسا اوقات مستقبل کے اندیشوں سے بھی۔
بیان کی صلاحیت انسان کو دیگر حیوانات سے ممتاز کرکے اشرف بناتی ہے۔اگر چہ دیگر حیوانات بھی اپنی اپنی مخصوص بولی بولتے ہیں یا ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں لیکن ان کی یہ صلاحیت انسانوں کو عطا کی گئی استعداد سے بہت کم ہے۔ اس لئے انسان کو ’حیوان ناطق‘ بھی کہاجاتا ہے۔ حیوانات میں بیان کی صلاحیت علم وہبی کے تابع ہوتی ہے جبکہ انسان کسب کے ذریعہ اس صلاحیت کا ارتقا کرتاہے۔جب اللہ نے انسان کو اتنی بڑی صلاحیت دی ہے تو پھر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اللہ کس طرح کے بیان کو پسند کرتا ہے اور کس طرح کو ناپسند کرتا ہے۔ سورہ لقمان میں ہدایت ہے کہ ”لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر“۔ یعنی تکبر کے اظہار کے ساتھ گفتگو نہ کر۔ اسی سورہ میں آگے کہا گیا ہے کہ ”اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے“۔ بلند اور کرخت آواز سے بات کرنا، چلا کر گفتگو کرنا، چیخ چیخ کر بولنا، اس انداز کی قرآن نے ممانعت کی ہے۔اللہ کے رسولﷺ نہ بہت زیادہ بلند آواز سے بات کرتے تھے اور نہ ہی اتنی پست کہ سننے والے کو سننے میں مشکل پیش آئے۔ اعتدال کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی کرتے تھے۔بعض لوگ آدھے ادھورے جملے بولتے ہیں۔ الفاظ کا کچھ حصہ بولتے ہیں اور کچھ حذف کرجاتے ہیں۔یہ پسندیدہ طریقہ نہیں ہے۔سورہ عبس کے آغاز میں رب مخلوقات کہتا ہے ”ترش رو ہوا، اور بے رخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا“۔ ان آیات کو اوپر کی آیات سے جوڑ کر پڑھا جائے تو گفتگو (بیان) کے بہت سے آداب کا علم ہوتاہے۔
گفتگو کے دوران الفاظ کے ساتھ لب و لہجہ اور انداز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ الفاظ بہتر ہیں لیکن اسلوب و انداز (body language) خراب ہو تو الفاظ اپنی تاثیر کھودیتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گفتگو کے دوران پیغام کا صرف 20 فیصد حصہ الفاظ کے ذریعہ ادا ہوتا ہے جبکہ 80 فیصد حصہ بولنے والے کے لہجے، انداز اور تیور پر منحصر ہوتا ہے۔ سورہ عبس کی ابتدائی آیات سے بھی یہی ہدایت ملتی ہے۔سورہ عبس میں بے رخی برتنے کا واقعہ یہ اصول بھی ہمیں دیتا ہے کہ اگر ہم کسی سے مخاطب ہوں یا کوئی ہم سے مخاطب ہو تو ہم ہمہ تن گوش رہیں۔ پوری توجہ کے ساتھ اس کی گفتگو کو سنیں۔ نظریں ملا کر سنیں۔ مخاطب کسی سے ہوں اور نظریں کسی اور طرف،یہ انداز کلام کی تاثیر کو کم کردیتا ہے۔ سورہ عبس کی ان آیات میں اس عمل کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے،مگر ہمارا عام رویہ کچھ ایسا ہی ہے۔ کسی غیر اہم شخص، بچوں اور کبھی زوجہ سے بات کرتے ہیں تو پوری توجہ مرکوز کرکے اور نظریں ملا کر گفتگو نہیں کی جاتی بلکہ کسی کام میں مشغول رہتے ہوئے سننے کا عمل جاری رکھے ہوتے ہیں،یہ رویہ عام ہوگیا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آج خاندانوں میں اہل خانہ کے مابین بات توہوتی ہے، گفتگو نہیں۔ الفاظ کے مجموعے کی ادائیگی کرلینا گفتگو نہیں کہلاتا۔جذبات، احساسات، تکلفات، لہجے اور تیور کی ترسیل گفتگو کہلاتی ہے اور یہی گفتگو نتیجے پیدا کرتی ہے۔
رشتوں، تعلقات اور روابط میں آج کل باڈی لنگویج کو غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے۔ باڈی لنگویج کا ایک زبردست اظہار یہ مسکراہٹ ہے۔ پیارے رسول ﷺ نے کہا ”مسکراہٹ صدقہ ہے“۔ مسکراؤ اور نیکی پاؤ۔ یہ اور بات ہے کہ مادہ پرستانہ نظام مسکراہٹ کو بھی فروخت کرتا ہے۔ آج کارپوریٹ ہاؤسوں کے استقبالیہ پر لڑکیوں کو صرف گاہکوں سے مسکرا کر بات کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں باڈی لنگویج کے اثرات کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔ ایک مثال دیکھئے بہو میکے سے اپنے گھر آتی ہے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس کا سامنا اپنی ساس سے ہوتا ہے تو وہ اسے سلام کرتی ہے۔ سلام کے الفاظ تو بہو نے ادا کئے، تاہم نہ تو وہ ساس کے قریب گئی،نہ اس نے ساس کی طرف دیکھااور نہ ساس کی خیرت دریافت کی۔سلام کے الفاظ کے علاوہ اوپر بیان کیا گیا رویہ باڈی لنگویج سے تعلق رکھتا ہے۔اس رویے پر غور کریں کہ کیا اس طرح کے رویے سے ساس اور بہو کے رشتے میں گرماہٹ آئے گی؟ ویسے آج اس رشتے کی گرماہٹ کو بہت کم خاندان قبول کرتے ہیں۔اس طرح کی مثالیں گھر میں بچوں کے ساتھ بھی پیش آتی ہیں۔مذکورہ سورہ میں انداز گفتگو کے تعلق سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم گفتگو کے عمل کے دوران کسی کو کم تر نہ سمجھیں یا کسی کو نظر انداز نہ کریں۔کیونکہ کسی بھی فرد کو گفتگو کے دوران نظر انداز کرنا، انہیں کم تر سمجھنا یا انہیں کم معیاری تصور کرنے کا رویہ اختیار کرنا، نفسیات کی زبان میں افراد کو ڈسکاؤنٹ کرنا کہا جاتاہے جو روابط اور تعلقات کو کمزور اور گفتگو کو بے اثر کردیتاہے۔اس طرح کی گفتگو سے بات دل میں نہیں اترتی بلکہ ٹکرا کر واپس آجاتی ہے۔
ماہر نفسیات ایرک برن نے گفتگو کے دوران ہونے والی ایک اور کیفیت کا ذکر کیا ہے جسے ضربی گفتگو (cross transaction) کہا جاتا ہے۔ ایسی گفتگو کا مشاہدہ اکثر ہم اپنے اطراف کے ماحول اور گھروں میں کرتے ہیں۔ گفتگو کی اس کیفیت میں ایک شخص دوسرے کو کچھ کہتا ہے۔ دوسرا شخص پہلے کی کہی گئی باتوں کا جواب دینے کے بجائے کوئی دوسری بات کہہ دیتا ہے۔دوسرے کا یہ جملہ پہلے کے جملے کو کاٹ دیتا ہے۔اس پر ضرب لگاتا ہے، یہ اس کی بات کا سیدھا اور راست جواب نہیں ہوتا۔ مثلا ًایک دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا ’خیریت ہے‘ تو دوسرے نے جواب دیا ’کیوں آپ کو کیا تکلیف ہے“۔اس طرح کی گفتگو سے باہمی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔، رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، پیغام کی ترسیل بھی نہیں ہوتی۔ اگر گفتگو کے دوران ایسی کیفیت پیدا ہوجائے تو قرآن مجید نے اس سورت میں ہماری بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔سورہ فرقان میں کہا گیا کہ ” اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام“۔
مولانا مودودی اس کی تفہیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”رحمن کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی اور بہتان سے اور اسی طرح کی بیہودگی کا جواب ویسی ہی بیہودگی سے نہیں دیتے بلکہ ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ اس کو سلام کرکے الگ ہوجاتے ہیں“۔ اسی طرح کی رہنمائی سورہ القصص آیت 55 میں بھی ملتی ہے۔ ان آیات مبارکہ میں کراس ٹرانزیکشن یعنی ’تو تو، میں میں‘ سے احتراز کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایسی گفتگو میں الجھنے کے بجائے سلام کہہ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی جائے یا گفتگو ختم کردی جائے۔ ضربی گفتگو یا کراس ٹرانزیکشن والی گفتگو کا نتیجہ اکثر خوش گوار نہیں نکلتا۔ ماہرین نفسیات بھی ایسی گفتگو سے اجتناب کا مشورہ دیتے ہیں۔اگر ہم اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں اور اپنے لب و لہجے اور گفتگو وبیان میں نرم روی اختیار کریں تو نہ صرف اس پر اجر ملے گابلکہ اس میں زبردست تاثیر بھی پیدا ہوگی، کیونکہ حسین اسلوب اور مہذب انداز بیاں سننے والوں کے دلوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔