مذاکرہ کی ابتدا میں پروفیسر خالد اشرف نے کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس کتاب کی تدوین کی وجوہات پر تفصیلی گفتگو کی نیز اس زمانے کی سیاسی وثقافتی معاملات پرسچ کو سامنے لانے کی بھی کوشش کی او ر یہ کتاب کیوں اہم ہے و قدیم متون سے کس قدر مختلف ہے اس پر بھی روشنی ڈالی ۔
پروفیسر محمدکاظم نے مرتب اور کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر خالد اشرف کی کئی خصوصیات میں سے سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ کوئی بھی نظریہ رواروی میں قائم نہیں کرتے ہیں، بلکہ بہت ہی زیادہ لکھ پڑھ کر اپنا نظریہ قائم کرتے ہیں ۔ ان دونوں کتابوں سے انھوں نے اودھ کی تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔نیز فنون لطیفہ کے حوالے سے یہ مطالعہ کی اہم کتاب ہے ۔
پروفیسر بجرنگ بہاری نے کہا کہ انگریزوں کا پورا سسٹم اس بات پر لگا ہوا تھاکہ واجد علی شاہ کے کردار کو کس طرح مسخ کیا جائے ۔ پروفیسر اوما کانت چوبے نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا حکومتی عہد تو بہت ہی کم رہا ہے لیکن علمی حکومت اب تک قائم ہے نیز انھوںنے کہا کہ اودھ کے لوک گیتوں میں آ ج بھی واجدعلی شاہ کو بہت ہی احترام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ کسی بھی گیت میں منفی خیال کا اظہار نظر نہیں آتا ہے ۔ ان کے علاوہ ایم سعید عالم نے بھی اس کتاب پر اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کی ۔
پروگرام کے شروع میں اردواکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے استقبالیہ کلمات اداکرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر خالد اشرف کی ایک جلد کی اس کتاب میں صرف دوکتابیں بند نہیں ہیں بلکہ تین کتابیں سمجھی جائیں ،کیونکہ مقدمہ جس قدر تفصیل سے انہوںنے لکھا ہے اس میں واجد علی شاہ کی شخصیت و فن کے ساتھ ان کے علمی کارناموں پر بھی بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے ۔
اس پر وگرام کی خوبصورت نظامت ڈاکٹر جاوید حسن نے کی ۔ شرکاء میں پروفیسر عبدالحق ، پروفیسر خالد محمود ، ڈاکٹر ریاض عمر ، ڈاکٹر وجے کمار ، خورشید اکر م، محسن الحق ، ڈاکٹر شبانہ نذیر ، ڈاکٹر شمع افروز زید ی ، ڈاکٹر نگار عظیم، ڈاکٹر نجمہ ، ڈاکٹر عادل حیات ، ڈاکٹر خالد مبشر ، ڈاکٹر مستمر ، ڈاکٹر قمرالحسن ، ڈاکٹر مرتضی، ایم آر قاسمی ، احمد علوی ، حبیب سیفی ،ڈاکٹر ابراہیم افسر ،نتن کبیر، ڈاکٹر فرمان چودھری ، ڈاکٹر شاہنواز ہاشمی کے علاوہ کئی دیگر اہم اساتذہ اور ریسر چ اسکالروں کی کافی تعداد موجود تھی ۔