Masarrat
Masarrat Urdu

نئی قومی تعلیمی پالیسی میں خاص کیا ہے

  • 17 Jul 2019
  • ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
  • مضامین
Thumb



مشہور سائنسدان ڈاکٹر کے کستوری رنگن کی قیادت والی کمیٹی نے آخر نئی قومی تعلیمی پالیسی کا ڈرافٹ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اور ترقی رمیش پوکھریال نشنک کے سپرد کر دیا۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ تھی۔ کستوری رنگن کمیٹی نے سابق کابینہ سکریٹری ٹی ایس سبرامنیم کی سربراہی والے پینل کی رپورٹ کو بھی دھیان میں رکھا، اس وقت اس کی صدارت اسمرتی ایرانی کر رہی تھیں۔ مودی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کو جلد از جلد لاگو کرانے کے تئیں بے حد سنجیدہ ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور خود وزیر اعظم نریندرمودی اس معاملہ میں خاص طور پر دلچسپی لے رہے ہیں۔ وزیر فروغ انسانی وسائل  رمیش پوکھریال نشنک اسے لاگو کرانے کے امکانات تلاش کرنے  کیلئے ماہرین و دانشوروں سے میٹنگیں کر رہے ہیں۔ دیگر افراد سے بھی رائے لی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں کئی دور کی گفتگو ہو چکی ہے۔ وہ اسے لے کر وزیر اعظم سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم کی خواہش ملک کے تعلیمی نظام کو رٹا مارنے کے رجحان اور نمبروں کی ہوڑ سے باہر نکالنے کی ہے۔ 
ملک میں مربوط تعلیمی نظام کی ابتداء لارڈ میکالے نے کی تھی۔ اس کا مقصد برٹش حکومت کو چلانے کیلئے مقامی مین پاور کی فراہمی تھا۔ میکالے کے تعلیمی نظام نے یہ ذمہ داری بخوبی انجام دی۔ آزادی کے بعد تعلیمی نظام کو ملک کے مزاج اور مانگ سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے عہدہ سنبھالنے کے بعد 18 فروری 1948 کو پریس کانفرنس میں تعلیم کے تعلق سے اپنے نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی لا سکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ مشرقی اور مغربی علوم میں ہم آہنگی پیدا ہو اور تعلیم سے شخصیت سازی کا کام لیا جائے۔ یہ تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی و تمدنی نظام بھی بہتر ہو سکے گا۔ اسی فکر کے پیش نظر 1968 میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کی نگرانی میں تعلیمی رپورٹ تیار کی گئی۔ 1968 کی تعلیمی رپورٹ کو عملی شکل دینے کیلئے وسائل کا فقدان رہا، اس کی وجہ سے قومی نظام تعلیم ان توقعات پر پورا نہیں اتر سکا جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ سماجی انحطاط اور اخلاقی پستی پر گرچہ بہت حد تک قابو پایا گیا لیکن پوری طرح اس کا سدباب نہ ہو سکا۔ پھر 1986 میں نئی قومی تعلیمی پالیسی لائی گئی۔ 1992 میں پلان آف ایکشن اور 2005 میں قومی نصاب۔ اب 2019 کی مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی زیر بحث ہے۔ 
مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی انگریزی کے ساتھ ہندوستانی زبانوں و سنسکرت یا لبرل آرٹ کو فروغ دینے پر زور دیتی ہے۔ سابقہ کمیٹیوں کی طرح کستوری رنگن کمیٹی نے بھی اسکولوں میں سہ لسانی فارمولہ کے نفاذ کو منظور کیا ہے۔ اس کے علاوہ نرسری سے پانچویں جماعت تک بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی حمایت کرتی ہے۔ ریاست کی بنیادی زبان کے ساتھ اسکولی نصاب میں تیسری زبان کے طور پر ہندی کو لازمی کئے جانے کی سفارش پر ہوئے شوروغل کے بعد ترمیم شدہ ڈرافٹ میں لازمی کی جگہ لچکدار لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں ایک سے 18 سال کی عمر تک کے بچوں کو لازمی مفت معیاری تعلیم دینے کو کہا گیا ہے۔ پہلی جماعت کے بجائے نرسری اور آٹھویں کے بجائے 12ویں تک مفت لازمی تعلیم کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے حق تعلیم قانون میں توسیع کرنا بھی اس پالیسی میں شامل ہے۔ موجودہ اسکولی نصاب اور درسی کتب میں فلکیات، فلسفہ، نفسیات، یوگ، فن تعمیر، طب کے ساتھ ساتھ سیاست، حکومت، سماج اور ہندوستانی علوم میں معاونت کرنے والے ہندوستانیوں کے مضامین کو شامل کرنے کی تجویزہے۔ 2020 تک قومی درسیات کے خاکہ پر نظر ثانی کا کام مکمل کر لیا جائے گا۔ نئی نصابی کتب کی تیاری اور اعلیٰ درجے کے تراجم کا حصول بھی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ تجویز یہ بھی ہے کہ پالی، فارسی اور پراکرت زبانوں کیلئے ایک الگ نیشنل یونیورسٹی قائم کی جائے۔ 
تعلیمی پالیسی کا ڈرافٹ پڑھنے کے ساتھ سیکھنے پر مرکوز ہے۔ سیکھنے کو لکھائی پڑھائی تک محدود نہ رکھ کر اسے سہ نصابی و اضافی نصابی سرگرمیوں سے جوڑا جائے گا، جیسے آرٹ، موسیقی، کھیل کود، یوگ، سماجی خدمت اور دستکاری وغیرہ۔ کمپیوٹر اور تکنیک کے زمانہ میں کمپیوٹر کے ذریعہ امتحان اور ہنر پر مبنی نصاب کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ دسویں اور بارہویں بورڈ امتحانات میں بچوں کے تناؤ کو کم کرنا چاہئے۔ طلبہ کو بورڈ امتحانات میں مضامین کو دوہرانے کی اجازت دینے کیلئے پالیسی بنانے کو کہا گیا ہے۔ اس کے تحت طالب علم کو جس سیمسٹر میں لگتا ہے کہ وہ امتحان دینے کیلئے تیار ہے،اس وقت اس کا امتحان لینا چاہئے۔ بعد میں اگر اسے لگتا ہے کہ وہ اور بہتر کر سکتا ہے تو اسے امتحان دینے کا ایک اور موقع دینا چاہئے۔ کمیٹی نے نیشنل تعلیمی کمیشن بنانے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ تاکہ اس کے ذریعہ ملک میں تعلیم کے نقطئ نظر کو ڈولپ، لاگو، جائزہ اور ترمیم کیا جا سکے۔ کمیٹی کی بڑی سفارش انسانی وسائل کی وزارت کو پھر سے وزارت تعلیم کا نام دیئے جانے کی ہے۔ 
موٹے طور پر نئی تعلیمی پالیسی نے 5+3+3+4 کے تعلیمی فارمولے پر اسکولی تعلیم کو چار حصوں میں بانٹا ہے۔ اس طرح اب اسکول کی تعلیم بارہ سال سے بڑھا کر 15 سال کیا جانا تجویز کیا گیا ہے۔ گریجویشن میں تین اور چار سالہ ڈگری کا مشورہ دیا ہے۔ چار سالہ ڈگری پروگرام میں پڑھائی کرنے کے بعد طالب علم ایک سال میں ماسٹر ڈگری کر سکتا ہے۔ بی ایڈ کے دو سالہ ڈگری کورس کو بند کر مخصوص یونیورسٹیوں کو چار سالہ بی ایڈ کورس چلانے کی اجازت دی جائے گی۔ تاکہ اسکولوں کو اچھے اساتذہ مل سکیں۔ سفارش ہے کہ دنیا کے اعلیٰ 200 اداروں کے کیمپس انڈیا میں کھولے جائیں۔ نالندہ، تکشیلا کی طرز پر بھارت کی قدیم جامعات کو آگے بڑھایا جائے۔ ملٹی ڈسپلنری یونیورسٹی و کالج کھولے جائیں، جو ایک ساتھ کئی مضامین کی پڑھائی کراتے ہوں۔ یو جی سی کو تحلیل کر ہایئر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا ایکٹ 2018 بنایا جائے۔ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی سے سبھی داخلہ اور مقابلہ جاتی امتحانات کرائے جائیں۔ نیشنل اسکالرشپ فنڈ ایجاد ہو، تاکہ طلبہ کو تعلیم میں آگے بڑھنے کا موقع ملے اور غریب طلبہ کو فیس معافی۔ اس کے علاوہ مجوزہ پالیسی کا ڈرافٹ نجی اسکولوں کو اپنا فیس ڈھانچہ طے کرنے کی آزادی دیتا ہے، من مانے طریقہ سے فیس بڑھانے کی مناہی کے ساتھ۔ 
نئی تعلیمی پالیسی کے ڈرافٹ میں کئی ایسے پہلو ہیں جن پر تفصیل سے گفتگو درکار ہے۔ مثلاً نئی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے جو وسائل درکار ہوں گے، کیا حکومت انہیں فراہم کر پائے گی، جبکہ گزشتہ پانچ سال کے دوران تعلیم پر کئے جانے والے اخراجات میں کٹوتی ہی ہوئی ہے۔ حق تعلیم کا قانون سرکاری اسکولوں پر لاگو ہوتا ہے۔ نجی اسکول اس سے مستثنیٰ ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت اور ان میں دی جانے والی تعلیم سے ہر کوئی واقف ہے۔ باوجود اس کے کہ کئی مقامات پر سرکاری اسکول ہی تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں لیکن ان کی وجہ سے دو طرح کی سوسائٹی وجود میں آ رہی ہے۔ ایک وہ جو آٹھویں جماعت تک پڑھنے کے بعد تیسری جماعت کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، دوسرے وہ جو نجی اسکول سے معیاری تعلیم حاصل کر عملی زندگی میں آتے ہیں۔ اس فرق کو کم اور سب کو یکساں تعلیم کیسے ملے گی، نئی پالیسی میں اس کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ حق تعلیم کے دائرے کو وسیع کرنے اور اسکولی تعلیم کو 12 سال سے بڑھا کر 15 سال کرنے کی منشاء کیا ہے؟ نجی اسکولوں کی فیس بڑھنے سے عام آدمی کیلئے بچوں کو پڑھانا دشوار ہوگا۔ سرکار اس سے کیسے نبٹے گی یہ نہیں بتایا گیاہے۔ ہندوستانی زبانوں، تہذیب و ثقافت کی ترقی کی تجویز اچھی ہے، لیکن موجودہ ماحول میں مختلف مذاہب کے الگ الگ زبانیں بولنے والوں کی تہذیبوں کے فروغ کو کیسے یقینی بنایا جائے گا ڈرافٹ میں اس کی وضاحت نہیں ہے۔
اقلیتوں کے تعلیمی حقوق کا تحفظ کس طرح کیا جائے گا، ڈرافٹ پالیسی میں اس کا ذکر بھی نہیں ہے۔ آئین کی دفعہ 29، 30 اور 31 جس میں اقلیتوں کو اپنی پسند کی تعلیم دینے، تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس پر یہ پالیسی خاموش ہے۔ مدارس دینیہ کو عصری تعلیم سے جوڑنے کی بھی بات نہیں کی گئی ہے۔ مدارس دور دراز علاقوں میں وسیع پیمانے پر تعلیم کے فروغ کا کام کر رہے ہیں۔ حکومت ان کی تنظیم و تدوین کرکے ملک کی جامعات و اعلیٰ اداروں سے جوڑ کر انہیں ملک کیلئے مفید بنا سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ماہرین تعلیم اور دانشور ڈرافٹ پالیسی کا باریکی سے جائزہ لیں اور حکومت کو اپنی سفارشات ارسال کریں۔ تاکہ قومی تعلیمی پالیسی کو آخری شکل دیتے وقت ان سفارشات کو شامل کیا جا سکے۔ میکالے نے اپنی حکومت کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ایک تعلیمی نظام قائم کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس تعلیمی پالیسی کے ذریعہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ترقی، رواداری، بھائی چارہ، اخوت، انیکتا میں ایکتا یا پھر کسی خاص نکتہ نظر کا تسلط۔

 

Ads