اصلاح معاشرہ کا عمل قرآنی و نبوی ہے۔ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس معاشرے میں آنکھیں کھولی تھی وہ تمام تر برائیوں کی آماجگاہ تھا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ایسی اصلاح فرمائی کہ رہتی دنیا تک وہ معاشرہ پوری کائنات کے لئے نمونہ اور آئیڈیل بن گیا۔
پوری دنیا میں قائم لاکھوں مدارس و جامعات،دعوت و تبلیغ کے سینٹرس اور ملی جماعتوں اور دینی انجمنوں کے دسیوں مقاصد میں سے بنیادی مقصد روئے زمین پر بسنے والے مختلف سماج و معاشرے کی ایسی اصلاح ہے جس میں آدمیت و انسانیت،اخوت و بھائی چارگی،پیار و محبت،امن و سکون،عدل وانصاف اور قرآنی و نبوی احکامات کا غلغلہ ہو اور وہ محسن انسانیت رحمۃ للعلمین جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے برپا کئے گئے صالح معاشرے کی آئینہ دار ہو۔صدیوں سے اکابرین امت نے ان ہی اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لئے اصلاح معاشرہ کی مہمیں چلارکھی ہیں،ہمارے اکابرین علماء دیوبند اسی اصلاحی تحریک کو جلسہ اصلاح معاشرہ یا اجلاس اصلاح معاشرہ کے عنوان سے کرتے چلے آرہے ہیں۔الحمد للّٰہ اکابرین علماء دیوبند نے اصلاح معاشرہ کے ان ہزاروں اور لاکھوں دینی جلسوں سے معاشرے میں صالح انقلابات کی تاریخیں رقم کی ہیں۔اس لئے بلاشبہ اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے،اس سے کسی کو مجال انکار نہیں،اس کا انکار گویا چڑھتے سورج کی روشنی کا انکار ہے۔ماضی قریب تک ہمارے علاقہ سیمانچل بہار(جو کثیر مسلم آبادی پر مشتمل ہے اور پس ماندگی میں اپنی مثال آپ ہے) میں بھی اصلاح معاشرہ کے یہ اجلاس انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔لیکن مرور ایام اور حوادث زمانہ نے ہمیں اب بہت کچھ سوچنے و سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے؛اس لئے کہ قوم وملت کی جانب سے لاکھوں لاکھ کے اخراجات،ہفتوں مہینوں کی تیاریاں اور راتوں رات کی شب بیداریوں سے برائیوں میں لت پت معاشرے کا اب کوئی خاطر خواہ نفع نہیں ہورہا ہے بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔آئیے!موجودہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں پر ایک باریک نظر ڈالتے ہیں:
اصلاح معاشرہ کے جلسے کے انعقاد کے لئے مہینوں قبل مشورہ ہوتا ہے،خوبصورت ملٹی کلر ڈیزائن پر مشتمل مہنگے اشتہار اور دعوت نامے چھپوائے جاتے ہیں،بنڈل کے بنڈل رسیدات اور کوپن کی چھپائی ہوتی ہے،نعتوں اور نظموں پر مشتمل دسیوں مقررین و شعراء کے ناموں کی ریکارڈنگ کے ساتھ آٹو/ٹیمپو کے ذریعے بعض بے ریش و غیر شرعی وضع قطع والے نوجوانوں کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے والے چھ سے چودہ سال تک کے معصوم بچوں کے ہاتھوں میں رسید اور کوپن تھماکر ان سے علاقہ علاقہ،گاؤں گاؤں،محلہ محلہ،گھر گھر حتیٰ کہ آنگن آنگن چندہ اکٹھا کروایا جاتا ہے،علاقے اور قرب و جوار کے زمینی مسائل سے واقف علماء و خطباء کو نظر انداز کرکے ہر معمولی اجلاس میں ریاست و بیرون ریاست سے موٹی موٹی رقمیں خرچ کرکے نامور بلکہ بعض پیشہ ور مقررین کو مدعو کیا جاتا ہے،مقامی و علاقائی شعراء کی ہمت افزائی کے بجائے پچیسوں/پچاسوں ہزار روپے کی قیمت پر دوردراز کے شعراء کو مدعو کیا جاتا ہے،ایک رات کے جلسے میں دس دس دورات کے جلسے میں پندرہ پندرہ اور سہ روزہ اجلاس میں تیس تیس مقررین کو مدعو کیا جاتاہے،جہاں ایک یا دو شاعر سے کام چل سکتا تھا وہاں بیک وقت تین تین اور پانچ پانچ شعراء بلائے جاتے ہیں،ہر مقَرِّر کے بعد الگ الگ شاعر کو مقرَّر کیا جاتا ہے،پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھوں تک کے ساؤنڈ سسٹم،جھومر والے رنگ برنگے پنڈال اور آنکھیں چکاچوند کردینے والی بےشمار لائٹوں اور قمقموں سے جلسہ گاہ کو سجایا اور سنوارا جاتاہے،اجلاس کے دن پروگرام کا کوئی ٹھوس نظام الاوقات مرتب نہیں ہوتا،خطباء کے لئے عناوین متعین نہیں ہوتے،وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوتی،شعر و شاعری میں گھنٹوں ضائع کر دیئے جاتے ہیں،پنڈال میں موجود سامعین سے کئی گنا زیادہ لوگ مارکیٹ میں گھوم رہے ہوتے ہیں،گاؤں کا بیشتر سامع اپنے ساتھ ایک جوڑی اولاد ضرور لےکر آتا ہے،جلسے کے نام پر چائے کی دکانوں پر چسکیاں لی جارہی ہوتی ہیں،سڑک کے دونوں طرف مردوں اور عورتوں کا بےمہابا ایسا ہجوم ہوتا ہے کہ مسافروں کے لئے راستہ عبور کرنا مشکل ہوجاتا ہے،جلسہ گاہ کے سامنے/اردگرد لگائی گئی پنساری اور حلوے پراٹھے کی دوکانوں پر لوگ مزے لے لے کر سودا سلف خرید رہے ہوتے ہیں،شاہی گھرانے کی شہزادیوں کی طرح قطار در قطار نوجوان لڑکیوں اور دوشیزاؤں کے لئے مارکیٹ اور مینا بازار سجائے جاتے ہیں،جہاں بچوں کے کھلونے کے ساتھ لڑکیوں کے گہنے اور سامان زیب وزینت دھوم دھام سے فروخت ہورہے ہوتے ہیں،جوان لڑکیاں بن سنور کر رات کے اندھیرے میں جلسہ گاہ کے ارد گرد مشکوک انداز میں منڈلارہی ہوتی ہیں،پنڈال اور اسٹیج پر ایسے رنگ برنگے شامیانے سجائے جاتے ہیں گویا یہ کوئی دینی جلسہ نہیں بلکہ مسرت و شادمانی کی کوئی محفل ہے اور انتہائی بے غیرتی کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات کے نام پر اکٹھا کی گئی رقم سے غریبوں کے ساتھ امیروں کے لئے بھی شیرازی دسترخوان بچھادیئے جاتے ہیں۔
الغرض اس طرح ہٹو بچو رکو رہو اور سنو چلو والی افراتفری کے درمیان مغرب کے بعد اجلاس کا آغاز ہوتا ہے،آغاز کے بعد آدھے گھنٹے تک پنڈال میں حاضر ہونے کے لئے سامعین کو تیل لگایا جاتا ہے،آدھے گھنٹے تک تلاوت اور شعر و شاعری ہوتی ہے اور پھر مجمع کو جمانے،ذہن کو بنانے اور مزاج کو گرمانے کے لئے مقدمۃ الجیش کے طور پر پہلے خطیب کو دعوت سخن دی جاتی ہے۔اگر نظام چست درست رہا تو پہلی تقریر کے بعد آٹھ بجے شب تک نماز عشاء کی ادائیگی ہوجاتی ہے اور پھر بعد عشاء فجر تک یا دیر شب تک چلنے والے اجلاس کا باضابطہ آغاز ہوتاہے۔دن بھر کھیت کھلیان میں محنت و مشقت کرنے والے لوگ یا چھوٹے موٹے کاروبار میں تھک کر چور ہوجانے والی عوام کی کمزور سماعتوں میں عشاء سے فجر تک لگاتار یک مشت اصلاح اعمال کی اتنی باتیں انڈیل دی جاتی ہیں کہ انہیں کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کسے یاد رکھنا ہے اور کسے بھول جانا ہے،عموما بےچارے سامعین اختتام اجلاس پر مدہوشی کے عالم میں اپنے گھر پہونچ کر کان میں تیل ڈال کر فجر سے پہلے اس طرح گہری نیند سوجاتے ہیں جیسے نو عروس جوڑوں کو نیند آجاتی ہے اور جب سورج کی گرماہٹ سے ان کی نیندیں کھلتی ہیں تو وہ اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے چائے خانوں میں گذشتہ شب کے خطباء و شعراء پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی کو اول کسی کو دوم تو کسی بیچارے خطیب و شاعر کو سوم پوزیشن دیکر اصلاح معاشرہ کے جلسے کا قصہ تمام کردیتے ہیں تو ایمان داری کے ساتھ دل پر ہاتھ رکھ کر خود فیصلہ کریں کہ ایسے افسوس ناک بدلتے ہوئے ماحول میں اصلاح معاشرہ کے اجلاس کی ضرورت ہے یا خود ایسے جلسوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔۔۔۔؟
صاحبو!
العیاذ باللہ میری اس محاسباتی گفتگو سے اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی ذرہ برابر تنقیص مقصود نہیں ہے کیونکہ مجھے ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے بیس (22) سال فراغت کو ہوگئے ہیں اور تب سے درس وتدریس اور تنظیم و تحریک کی وابستگی کے ساتھ شعبہ اصلاح معاشرہ کے تحت جلسہ اصلاح معاشرہ میں لگاتار شرکت کررہاہوں اور حسب ضرورت ان جلسوں میں قوم وملت کے حوالے سے اپنی صلاحیت کے مطابق علاقائی سماجی و معاشرتی حالات حاضرہ پر اپنا درد اور پیغام بلاتکلف پیش کررہا ہوں۔۔۔
واقعہ یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی اپنی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔معاشرے کی اصلاح میں ان جلسوں کا نمایاں کردار رہا ہے۔ضلالت و گمراہی اور فسق وفجور میں مبتلاء عام مسلمانوں کی زندگیوں میں اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں نے ایسے انقلابات لائے ہیں کہ ان کی زندگیاں صراط مستقیم پر گامزن ہوگئی ہیں اور وہ فسق وفجور سے توبہ کرکے صالح مومن بن کر اللہ والوں کے طرز زندگی پر چل پڑے ہیں۔اسی لئے امت کی عمومی بیداری،ملت کی دینی آبیاری،شعور و وجدان کی آگہی اور امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لئے اکابرین امت اصلاح معاشرہ کے جلسے صدیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔لہذا ان جلسوں کے کارنامے سونے کے سنہرے حروف سے تاریخ میں درج ہیں اور تاقیامت یہ اپنی افادیت و معنویت کا سہرا اپنے نام جاری و ساری رکھیں گے انشاءاللہ۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرور ایام اور احوال زمانہ کے ساتھ ہر عمل جائزہ اور محاسبہ کا متقاضی ہوتاہے اور بیدار و فلاح یافتہ قوم وہی کہلاتی ہے جو مقتضائے حال کے موافق اپنا محاسبہ کرکے اپنی کمیوں و کوتاہیوں پر غور و فکر کرتے ہوئے ان کو دور کرتے ہوئے سیدھی اور کامیاب شاہ راہ پر گامزن ہوجایا کرتی ہے۔اس لئے اصلاح معاشرہ کے موجودہ جلسوں کا بھی جائزہ و محاسبہ کیا جانا واجب و ضروری اور زندہ قوم کی بیدار مغزی کی نشانی ہے تاکہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے جو مقاصد مطلوب ہیں وہ حاصل ہوسکیں اور یہ جلسے،جلسے ہی رہیں؛رسومات و خرافات کا مجموعہ،تفریح طبع یا فیشن اور اصلاح کے نام پر فتنہ و فسادات کا ذریعہ نہ بنیں۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ جلسے کے انعقاد سے قبل جلسے کے اہداف و مقاصد طے کئے جائیں اور اپنا ٹارگیٹ متعین کیا جائے۔پھر ان ہی مقاصد کے حصول کے لئے جدو جہد اور دوڑ دھوپ کی جائے حتیٰ کہ جلسے کے بعد جائزہ لیا جائے کہ ہم نے اپنے جلسے سے کیا کھویا کیا پایا!
بدقسمتی سے منتظمین اجلاس نے اپنے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پال رکھی ہے کہ جلسے کی کامیابی یہ ہے کہ ملٹی کلر اشتہار چھاپی جائے،کم از کم ایک درجن مقررین کے نام ہوں،آدھا درجن شعراء کی موجودگی ہو،مہمانان خصوصی کی لسٹ میں گاؤں کے تمام وارڈ ممبر اور پنچایت کے سارے سمیتی اور مکھیا و پارشد جی کا نام بھی ہو،اجلاس میں فلاں فلاں شہر کے مشہور مقرر کی تقریر ہو،ملت کے نوجوان اپنے ہی لوگوں کے لئے ہٹو بچو کے نعرہ لگارہے ہوں،کچھ لوگ قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں لیکن ہمارے نوجوان مقرر کی گاڑی پر ہی پھول برسارہے ہوں،دور دور تک لائٹنگ کا نظم ہو،بھاری بھرکم مائکنگ کا سسٹم ہو،ایک بڑے رقبے پر جھومر والے پنڈال کا سلسلہ ہو،سامعین کی تعداد بہت زیادہ ہو،خوب سے خوب چندہ اکٹھا کیا گیا ہو،حتی کہ مدارس و مکاتب کے معصوم بچوں کے ذریعے مہینوں مہینہ گلی گلی محلہ محلہ چندہ جمع کیا گیا ہو اور دیر رات تک وہ جلسہ اپنی آن بان شان کے ساتھ چلتا رہا ہو وغیرہ وغیرہ تب جاکر جلسہ کامیاب ہوگا ورنہ نہیں۔
نہیں،ہرگز نہیں،بالکل نہیں،قطعا نہیں۔یہ جلسے کی کامیابی کا معیار ہرگز نہیں ہوسکتا اور ان خرافات و بدعات سے معاشرہ مزید ضلالت وگمراہی اور فتنہ و فسادات کا شکار تو ہوسکتا ہے لیکن ان غلیظ حرکتوں سے معاشرے کی اصلاح قیامت تک نہیں ہوسکتی۔
اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ جس علاقے اور خطے میں منعقد ہوئے ہوں وہاں کے عوام وخواص جس سمت سے دین و مذہب سے دور یا دین بیزار تھے؛اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں سے ان کی زندگیوں میں مکمل نہ سہی ایک حد تک مثبت تبدیلی اور صالح انقلاب محسوس کئے گئے ہوں،سماجی و معاشرتی برائیوں کی روک تھام کے لئے وہ اجلاس مفید و موثر رہے ہوں،ان جلسوں نے عوام وخواص کے ذہن و فکر،قلب و جگر اور دل و دماغ کو جھنجھوڑنے،ان کے دل کی گہرائیوں میں دستک دےکر انہیں اپنی غلط روش،منفی چال و چلن اور شیطانی طور طریقے سے نکال کر صحیح اسلامی زندگی گزارنے پر آمادہ کردیا ہو اور انہیں غفلت کی زندگی سے بیدار کرکے اپنے شب و روز کا محاسبہ کرنے اور ذاتی اصلاح کے ساتھ اپنے خاندان اور پورے معاشرہ کی اصلاح کی تشکیل میں ان کی ذہن سازی میں اس نے کامیابی حاصل کی ہو!!!
یعنی جرائم اور برائیوں سے لت پت معاشرہ کی ان جلسوں سے کیا اصلاح ہوئی،کن برائیوں کا ان سے خاتمہ ہوا اور کن اچھائیوں کے فروغ کے وہ سبب بن سکے؟؟؟
یہی وہ اعلیٰ مقاصد ہیں جو اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے مطلوب ہیں جن سے آج کے اصلاح معاشرہ کے جلسے یکسر خالی ہوتے چلے جارہے ہیں۔بلکہ اوپر میں نے موجودہ جلسوں کی جو آپ بیتی پیش کی ہے یہ کسی ایک جلسہ کی دردناک کہانی نہیں ہے بلکہ تقریباً تمام ہی جلسوں کے یہی حال ہوگئے ہیں الا ماشاء اللہ؛اس سے آسانی سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آج کے اصلاح معاشرہ کے جلسے کتنے مفید اور اپنے مقاصد میں کتنے کامیاب ہیں یا وہ کن کن مفاسد و فتنوں کی آماج گاہ بن کر خود ہی اصلاح کے سخت محتاج ہوگئے ہیں۔
الحاصل اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے مطلوب یہی ہونا چاہئے کہ کس طرح آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری امت میں یہ احساس اور شعور بیدار ہوجائے کہ انہیں ان کے خالق و مالک نے ایک خاص مقصد عبدیت کے لئے دنیا میں بھیجا ہے۔ان کی زندگی کے دن متعین اور موت کی تاریخ اور لمحہ تک مقرر ہے اور پھر اسے اپنے وقت مقررہ پر خالق و مالک کے پاس حاضر ہوکر اپنی نیکی و بدی کا حساب دینا ہے۔
گفتگو کی طوالت کے لئے معذرت خواہ ہوں۔سردست ہمارے علاقے میں مروجہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں جن بنیادی اصلاحات کی اشد ترین ضرورت ہے ان کی نشاندہی اس امید کے ساتھ کی جاتی ہے کہ جلسہ اصلاح معاشرہ کے منتظمین ہمیں ہدف ملامت بنانے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ ان قابل اصلاح کمیوں پر غور کرنے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے اور ایک ذمےدار مرد دانا و بینا کی طرح اس سمت میں اپنی کوششوں کا آغاز فرمائیں گے انشاءاللہ۔
اپنی ناقص و محدود معلومات کے مطابق ضروری اصلاحات درج ذیل ہیں:
(01)جلسہ کے انعقاد سے قبل جلسہ کے اہداف و عزائم طے کرلئے جائیں۔
(02)مشاورت سے جلسہ کے رضاکاروں میں دین دار لوگوں کو ترجیح دی جائے۔
(03)چندہ کا نظام باوقار بنایا جائے اور کسی بھی قیمت پر مدرسہ یا محلے کے معصوم بچوں کا استعمال نہ کیا جائے۔
(04)آٹو وغیرہ کے ذریعے جلسے کا اعلان ضرور کروایا جائے لیکن اس سے گاؤں گاؤں اور علاقہ علاقہ چندہ کے سسٹم کو فی الفور بند کیا جائے۔
(05)اعلان میں نعت رسول مقبول کو اعلان کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
(06)اشتہارات بالکل سادہ سنگل کلر چھپوائے جائیں،ملٹی کلر میں پیسے کو ہرگز ہرگز ضائع نہ کئے جائیں۔
(07)اشتہار میں جلسہ کے نظام الاوقات(شیڈول)کی وضاحت ضرور بالضرور کردی جائے۔
(08)مقرر کی اجازت و منظوری کے بعد ہی اشتہار میں ان کے نام شائع کئے جائیں۔
(09)مقررین کی تعداد کم سے کم رکھی جائے مثلاً تین یا چار اور بس۔
(10)ہر مقرر کے لئے وقت کی تعیین کردی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
(11)اصلاح معاشرہ ایک کثیر العناوین موضوع ہے اس لئے علاقے کے لحاظ سے اجلاس میں سلگتے ہوئے اہم عناوین پہلے سے متعین کرلئے جائیں۔مثلاً تعلیم،تربیت،رزق حلال،رشوت،نماز،زکوۃ،نشہ،جہیز،ارتداد،حجاب وغیرہ
(12)ہر مقرر کو پہلے سے ہی ان کا عنوان اور وقت بتادیا جائے۔
(13)ایک مقرر کے خطاب کا دورانیہ تیس منٹ سے کم اور پینتالیس منٹ سے زیادہ نہ ہو۔
(14)اناؤنسر صاحب مختصر تمہیدی کلمات کے علاوہ ہر تقریر پر طویل تبصرے کے بجائے صرف ایک دو جملے کے تعارفی کلمات کے ساتھ مقررین کو بلالیں۔
(15)کورونا اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ملک کے حالات بالکل بدل چکے ہیں،بطور خاص مسلمانوں کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے اور مزید ستم ظریفی یہ کہ مہنگائی اپنی شباب پر ہے اس لئے بڑے اور مہنگے اجلاس کے بجائے چھوٹے چھوٹے اور کم اخراجات والے اجلاس منعقد کئے جائیں۔
(16)اولین کوشش یہ کی جائے کہ اجلاس گاؤں کی مساجد میں ہی کئے جائیں،چھوٹا اجلاس چھوٹی مسج میں اور بڑا اجلاس بڑی مسجد میں نیز مسجد کی لائٹ و مائک وغیرہ کا کرایہ منتظمین اجلاس کی طرف سے ضرور ادا کئے جائیں۔
(17)اگر میدان میں ہی جلسے کا انعقاد ہو تو اسٹیج اور پنڈال علماء کی شان کے مطابق بالکل سادہ اور سمپل تیار کروائے جائیں۔
(18)جلسہ کے مرتب نظام الاوقات میں درمیان میں کسی بھی قسم کی مداخلت گوارہ نہ کی جائے۔
(19)جلسے کا وقت مختصر اور جامع بنایا جائے،عصر بعد فوراً شروع کر دیا جائے اور ہر حال میں دس بجے شب تک ختم کردیا جائے،تاکہ لوگ جلسہ بھی سن لیں،آرام بھی کرلیں اور جماعت کے ساتھ فجر کی نماز بھی ادا کرلیں۔
(20)اجلاس کو مستورات سے بالکل پاک رکھا جائے،اس سلسلے میں کسی کی کوئی سفارش نہ سنی جائے۔
(21)اگر خواتین کی بھی اصلاح مقصود ہو تو ان کے لئے رات کے بجائے دن میں دس تا بارہ بجے یا پھر بعد ظہر تا عصر پردہ کے ساتھ پروگرام کرلیاجائے،قبل عصر ان کو رخصت کردیا جائے اور عصر و مغرب کے درمیان سبھوں کے لئے چائے نوشی کا وقفہ(Tiffin)رکھا جائے،اس درمیان کوئی خطاب نہ ہو۔
(22)کسی بھی حال میں جلسہ کے نام پر کسی قسم کی مارکیٹ بالخصوص مینا بازار نہ لگنے دیا جائے،اس پر شروع دن سے سخت پابندی کا باضابطہ اعلان کردیا جائے۔
(23)منتظمین آپسی مشاورت سے جلسہ کے اخراجات کا ایسا بجٹ بنائیں جس میں لازمی ضروریات ہی شامل ہوں،دھوم دھام،ٹھاٹ باٹھ اور فضولیات سے بجٹ مکمل پاک ہو۔
(24)منتظمین اجلاس فیصلہ کرلیں کہ ہمیں اپنا جلسہ اپنے ہی گاؤں یا قرب و جوار کی معاونت سے کرناہے اور علاقہ علاقہ مہینوں مہینہ چندے کا ڈھول نہیں پیٹنا ہے۔
(25)منتظمین اجلاس طے کرلیں کہ ہمیں اپنے جلسے میں پیشہ ور شعراء اور خطباء کو ہرگز مدعو نہیں کرنا ہے تاکہ اجلاس سے معاشرے میں ایک پریکٹیکل روحانی پیغام جائے اور جلسہ پر روایتی جلسے کی نحوست نہ آئے۔
(26)جلسہ کے اخراجات کے سلسلے میں از اول تا اخیر یہ حقیقت ہر لمحہ ملحوظ خاطر رہے کہ چندہ سے اکٹھا کی گئی یہ رقم اسی ملت کی گاڑھی کمائی سے حاصل کی گئی ہے جو مجموعی اعتبار سے غریب،پس ماندہ اور محتاج ہے،جن کی گھریلو ضروریات،بچوں کی ابتدائی تعلیم،علاج و معالجہ،بچیوں کی شادی اور سر چھپانے کے لئے جن کے پاس مناسب آشیانے تک نہیں ہیں لیکن انہوں نے منتظمین اجلاس کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اپنی ذاتی درد بھری داستان زندگی کو فراموش کرتے ہوئے اپنی جان و مال کی قربانی اس لئے پیش کردی ہے کہ یہ میرے دین اور سماج و معاشرے کا مسئلہ ہے۔۔۔۔
رب العالمین سے دست بہ دعاء ہوں کہ وہ محض اپنے فضل وکرم اور توفیق و عنایت سے امت مسلمہ کی اصلاح کی غرض سے ایک بڑا و قدیم نظام یعنی جلسہ اصلاح معاشرہ کے حوالے سے جو چند سطور لکھے گئے ہیں انہیں وہ اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے سرفراز فرمادے اور منتظمین اجلاس کھلے دل کے ساتھ ان حقائق پر سنجیدگی سے غور فرمائیں!!!
نائب صدر جمعیت علماء بہار