Masarrat
Masarrat Urdu

نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج

Thumb

 

حنیف ترین کا آخری مضمون جو دو دسمبر کو ارسال کیا تھا
 غالباًیہ ہندوستان کی تاریخ کا پہلا موقع تھا، جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں،بلکہ لاکھوں سکھوں نے اپنا سب سے بڑا تہوار کسان تحریک کے درمیان سڑکوں و خیموں میں منایا۔جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ پچھلے کئی دنوں سے دہلی و ہریانہ کی سرحد پر پنجاب سے لاکھوں کسان آئے ہوئے ہیں،جو مرکز کی جانب سے حال میں بنائے گئے زرعی اصلاحات کے کئی قوانین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔پنجاب سے دہلی آنے والے اِن کسانوں میں سکھوں کی تعداد خاصی ہے،جنہیں گرونانک دیوجی کا یوم پیدائش کے موقع پر گرودواروں میں عبادت اور خوشی کا موقع حاصل نہ ہوسکا۔
گرونانک دیوجی سکھوں کے پہلے مذہبی گرو تھے، جن کی پیدائش شہر نانکانہ صاحب(پاکستان)میں 15اپریل 1469 کو ہوئی تھی۔اس باران کا551واں یوم ولادت تھا،جس کی عظمت سکھ کمیونٹی کیلئے ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کیلئے خاص تھی۔خیال رہے کہ کارتک پورن ماشی کے دن منائے جانے والے ’گرو پرو‘کوسکھوں کیلئے سب بڑی خوشی کا دن اُسی طرح قرار دیاجاتا ہے،جس طرح ہولی دیوالی اور عیدین کے موقع پر ملک کے ہندو و مسلمان خوشیاں مناتے ہیں۔دراصل گرونانک جی عظیم سکھ مذہب کے ایسے بانی ہیں جنہوں نے ایک منفرد روحانی، سماجی اورسیاسی نظام ترتیب دیا، جس کی بنیادی انسانیت پرٹکی ہے۔ یعنی انسانوں سے محبت، بھائی چارہ، نیکی اور حسن سیرت۔ گرونانک کا کلام یاپیغام ان کی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب میں 974بھجنوں کی صورت میں موجودہے۔ سکھ روایات کے مطابق گرونانک کی پیدائش کے وقت اور ان کے بچپن میں ایسے واقعات رونماہوئے جن سے ظاہرہوتا تھا کہ نانک کوخدا نے اپنے خاص فضل سے نوازاہے۔
کہایہ بھی جاتاہے کہ پانچ سال کی عمر میں نانک کو مقدس پیغامات کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی۔ بعد میں ان کے والد محترم کالورام نے ان کو ایک مسلمان درویش سیدحسن کے یہاں اسلامی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بٹھادیا۔یہ بھی مشہورہے کہ انہوں نے ہندوستان بھر کے مقدس مقامات، مزارات، صوفی مراکز اوراس وقت موجود علمی ہستیوں سے ملاقاتیں کیں اور بابانانک کو یہ ساراگیان اوریہ راستہ بغیراستاد کے نہیں ملا۔ ان کے اساتذہ اورمربین میں میرحسین، میرجلال، میاں مٹھا، پیرعبدالرحمن، میرحسن صاحب، بابابڈھن شاہ، شیخ ابراہیم اور شیخ فریدثانی جیسی برگزیدہ ہستیوں سے ملا، جس کاگواہ خودگروگرنتھ صاحب ہے اور جس میں فرید ثانی صاحب کابہت ساکلام موجودہے۔
گرونانک دیو کی یہی وہ عظمت ہے،جو انہیں دوسری روحانی شخصیتوں سے ممتاز بناتی ہے۔
جب پچھلے سال گرو نانک کے آخری آرام گاہ یعنی کرتارپور کی راہداری سکھوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیاگیاتویہ برادری حقیقی معنوں میں       ’سچی خوشی‘حاصل کرنے میں کامیاب رہی کہ اپنے پہلے گرو کے آرام گاہ تک 7دہائیوں بعد رسائی حاصل ہوئی تھی۔ دراصل کرتارپور کے گرودوارہ جس کی مسافت محض 4کلومیٹر کے قریب ہے، تک ہندوستانی پنجاب کے سکھوں کی پہنچ ممکن ہونے میں 7دہائیاں لگ گئیں تب کہیں جاکر سکھ اپنے پہلے مذہبی پیشوا کے آخری جائے قیام کی دیدار کو یقینی بناسکے۔ اس خوشی کااظہار جس طرح سے کیاگیا، اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن ستم ظریفی یہ کہہ لیجیے کہ اگلے ہی سال جب کسان مخالف زرعی قوانین بنائے گئے تو ملک کے کاشت کاروں کا ایک بڑا طبقہ حکومت سے ناراض ہوگیا اوراس کی قیادت صحیح معنوں میں پنجاب کے کسانوں نے کی، جس میں سکھوں کی شمولیت سب سے زیادہ ہے۔ دوران احتجاج وہ اپنے سب سے بڑا تہوار احتجاج گاہوں میں منانے پر مجبورکردیے گئے، لیکن حکومت پھر بھی کسانوں کے مطالبات پر توجہ دینے سے قاصررہی۔ خودوزیراعظم پہلے ’من کی بات‘ میں اور پھر ایک عوامی تقریر میں یہی کہتے نظر آئے کہ کسانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ جب یہ سب کہنے کا کچھ اثر نہیں ہوا اورپنجاب کے کسانوں کی حمایت میں اترپردیش، ہریانہ کے علاوہ دوسری ریاستوں کے کاشت کار بھی قدم سے قدم ملاتے نظر آئے اورجب دہلی کی سرحدیں ’ان داتاؤں‘ کی صدائے احتجاج سے گونج اٹھیں اورجب یہ لگا کہ دہلی کی مکمل ناکہ بندی ہوا چاہتی ہے تو سرکار نے ’مذاکرات کااسٹیج‘ سجانے کا فیصلہ کیا۔وگیان بھون میں دودرجن سے زائد کسان انجمنوں کے نمائندگان کو مدعو کیا گیا اور بات چیت ہوئی بھی لیکن کوئی نتیجہ ہنوز برآمد نہیں ہوسکا ہے۔ سرکار کے نمائندے کہتے ہیں کہ ’آپسی سمجھ‘بڑھی ہے، جب کہ کاشت کار انجمنوں کاموقف ہے کہ سرکار مذاکرات کے بہانے اس معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ مذاکرات کا اگلادور کل(3دسمبر)کوہونا ہے، فی الحال احتجاج کا سلسلہ برقرار ہے۔ 
خیال رہے کہ رواں سال کے ستمبرماہ میں زراعت سے متعلق یکے بعد دیگرے تین بل متعارف کرائے گئے تھے اورانہیں آناًفاناًقانونی حیثیت دے دی گئی تھی،جس کے بعدسے ہی پورے ملک میں ہنگامہ برپاہوگیاتھا۔یہ الگ بات ہے کہ پنجاب کے کسانوں نے دہلی کی جانب بہت انتظار کے بعد کوچ کیا۔اس سے قبل احتجاج کا ایک لمبا سلسلہ پنجاب میں شروع کیا گیا،جس کے تحت ریل کی پٹریوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اورحکومت کواپنی ناراضگیوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن جب سرکار نے اِن احتجاج کاروں کی ایک نہ سنی توآخر میں انہوں نے دہلی کارُخ کیا۔
 حالانکہ راجیہ سبھا سے ان قوانین کے پاس کرانے کے دوران اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیاتھا، جس کے نتیجے میں 8 اراکین کو ایک ہفتے کیلئے معطل بھی کردیا گیاتھا۔راجیہ سبھاکے چیئرمین کے اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے ایوان کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ان قوانین پر صرف اپوزیشن کو اعتراض تھا، بلکہ بی جے پی کی حلیف جماعت ’شرومنی اکالی دل‘ کی وزیر ہرسمرت کور نے اسے کسان مخالف بتاتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفیٰ بھی دے دیاتھا۔اس کے بعد کسان تنظیموں نے مرکزی حکومت کو الٹی میٹم بھی دیا، مگرحکومت اپنی ضدپراڑی رہی،نتیجتاً25نومبر کو ’دہلی چلو‘ کے نعرے کے ساتھ کسان دہلی آدھمکے اور مختلف مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں ڈٹ گئے۔ان کا کہنا ہے کہ اگرضرورت پڑی تو وہ برسوں تک اپنا احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں،ان کے لیے راشن پانی کوئی مسئلہ ہے۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے انھیں دلّی میں داخل ہونے سے مسلسل روکا جا رہا ہے،جس کی وجہ سے کسانوں اور پولیس میں مختلف مقامات پر تصادم کاسلسلہ بھی دیکھنے کو مل چکا ہے۔
خیال رہے کہ کسانوں کا یہ مظاہرہ مرکزی حکومت کے ذریعہ بنائے گئے 3 زراعتی قانون(1) کسان پیدوار ٹریڈ اورکامرس (فروغ اورسہولت) بل2020-، (2)کسان (امپاورمنٹ اور تحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل2020-اور(3) ضروری اشیا (ترمیم) بل2020کے خلاف ہے جسے گزشتہ27ستمبر کو صدر جمہوریہ نے منظوری دے دی تھی۔
ہندوستان میں حکومت زرعی پیداوار کی ہر سال ایک کم از کم قیمت (ایم ایس پی) طے ہوتی ہے، جس سے کسانوں کو فائدہ ہوتا ہے۔اس کے تحت کسان اپنی پیداوار کو ملک کی 7000 سے زائد سرکاری منڈیوں میں کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ اس کا مقصد انہیں استحصال سے بچانا ہے،مگرسرکار کے مطابق نئے قانون کامقصد کمیشن ایجنٹوں کو ختم کرکے کسان اور صارف دونوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے زرعی قوانین میں ایم ایس پی کا کوئی ذکر نہیں ہے، اسی لیے کسانوں کوخدشہ ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعہ ایم ایس پی کے نظام کو ختم کرکے انھیں تاجروں کے رحم وکرم پر چھوڑناچاہتی ہے، کیوں کہ 85 فیصد کسان کافی غریب ہیں۔ ان کے پاس 5ایکڑ سے بھی کم زمین ہے۔ اس لیے انھیں اپنی پیداوار کو فروخت کرنے کے سلسلے میں بڑے تاجروں تک پہنچناآسان نہیں ہوگا۔ 
زرعی شعبہ کے جانکار اسے تباہ کن مان رہے ہیں،مگر سرکار نہ صرف مسلسل اس سے انکار کررہی ہے بلکہ اسے ’تاریخی‘ بھی بتارہی ہے۔ حکومت کادعویٰ ہے کہ نئے قوانین محض زرعی پیدوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام ہے،اس کے علاوہ کچھ نہیں۔اس سے کسانوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی پیداوار سرکاری منڈیوں میں فروخت کرنے کیلئے مجبورنہیں ہوں گے اور وہ کسی بھی بڑے کاروباری کے ساتھ معاہدے کرکے اپنی پیداوار کو ملک بھرمیں کہیں بھی فروخت کر سکیں گے۔اس سے ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔
سرکار کے اس دعوے پرکسانوں کوبھروسہ نہیں ہے۔بد اعتمادی بے سبب بھی نہیں ہے۔سرکارنے پہلے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی اور کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون کو بھی ’تاریخی‘ کہا تھا اوران کے بے شمار فائدے گنوائے تھے لیکن ان سب کا حشر سب کے سامنے ہے۔
نئے قانون پراپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا کسان سبھا کے قومی جنرل سکریٹری اتل کمار انجان نے کہا ہے کہ ’مودی حکومت کسانوں کومسلسل دھوکے دے رہی ہے، اس نے عوام کو سچائی بتائے بغیر،جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے کسان مخالف بل منظور کرالیے ہیں۔حکومت کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے نام پر بھی دھوکے دے رہی ہے،کیوں کہ اب کسانوں کی پیداوار منڈیوں میں فروخت ہونے کے بجائے اونے پونے داموں پربڑے کاروباری خریدلیں گے۔‘
’ہند کسان‘ نیوز چینل کے چیف ایڈیٹر ہرویر سنگھ کے مطابق ’نئے قانون کے جیسانظام بہار میں پہلے سے موجودہے،لیکن اس کا کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ اس طرح کہ مکئی 1765روپے فی کوئنٹل کم از کم سرکاری قیمت کے مقابلے بہار کے کسانوں کو مکئی کی اپنی فصل 900 روپے فی کوئنٹل فروخت کرنی پڑتی ہے۔‘  ظاہر سی بات ہے کہ اگر اپنی مصنوعات خود فروخت کرنے کا یہ نظام مثالی ہوتا تو بہار کے کسان ہر سال برباد نہیں ہوتے۔
زرعی امور کے ماہر ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ ’ایم ایس پی لفظ کا اس قانون میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ میری پچھلے دنوں وزیر زراعت سے بات چیت ہوئی تھی، ان کا کہنا تھاکہ ایم ایس پی کوئی قانون نہیں ہے۔ یہ ایک اسکیم ہے‘۔ہرویر سنگھ کے مطابق چونکہ یہ ایک اسکیم ہے، اس لیے حکومت جب چاہے، اس کو صرف دو سطری حکم سے ختم کرسکتی ہے۔
سرکار کو ابتدامیں لگ رہاتھا کہ وہ کسانوں کی تحریک کو بہ زور طاقت کچل دے گی مگر اب اسے یہ محسوس ہوگیا ہے کہ یہ اس کی خام خیالی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس نے کسانوں کی تحریک طول پکڑنے کے ساتھ ہی مذاکرات کاراستہ چننے کا فیصلہ کیا۔
کسانوں کے احتجاج کانقطہ انجام کیاہوگا یہ 3دسمبر کے مذاکرات کے بعد ہی سامنے آسکے گا۔ سردست اس تحریک کو جس طرح سے باہری لوگوں یاتنظیموں کی حمایت مل رہی ہے، اس سے سرکار گھبرائی ہوئی ہے۔ ایک طرف آل انڈیا ٹیکسی یونین نے چکا جام کی دھمکی دے رکھی ہے جب کہ دوسری جانب سی اے اے، این آرسی اوراین پی آر کے خلاف شاہین باغ کے طویل دھرنوں میں شامل ’عالمی شہرت یافتہ دادی‘(بلقیس) نے اس تحریک کے تئیں اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا، وہ بھی قابل توجہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حکمراں جماعت کی جانب سے کسانوں کی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے’خالصتان اینگل‘کا شوشہ چھوڑا گیا، جس کی بعض میڈیا نے دھجیاں اڑا کر دی دی۔ بہرحال دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ کسانوں کے احتجاج کا خاتمہ کس صورت میں ہوتا ہے۔ فی الحال یہ کہاجاسکتا ہے کہ سرکار جھک چکی ہے اور مذاکرات پر مجبورہوناپڑگیا ہے۔
   صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
#: 9971730422
tarinhanif@gmail.com

 

Ads