ربیع الاوّل کا مہینہ خوشی اور پیغمبراکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا مہینہ ہے، وہ نبی جس کو خدا وند کریم نے قرآن مجید میں عالمین کی رحمت اور نیکی کا نمونہ بنا کے پیش کیا ہے۔ قرآن کریم، وحی کا مجموعہ ہے اور نبی اکرم ؐ الہٰی نمائندہ ہیں۔ پیغمبر اکرم ؐ کی اخلاقی عظمت ایک ایسی مثال ہے کہ خدا نے خود ان کو عالم انسانیت کے لئے اُسوہ حسنہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ الہٰی اقدار و اخلاقیات کے کمال کا مظہر ہیں اور رسول اللہ ؐ کے علاوہ کوئی بھی الہٰی اوصاف و اقدارکی کامل خصوصیات کو ظاہر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ذات گرامی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آئینہ ہے جس میں الہٰی رحم و کرم کا عکس نظر آتا ہے۔ظاہر ہے زمین پر خلیفہ خدا کارول اداکرنے کے لئے انسان کو ایسے انبیاء سے ہی درس اخلاق لینا چاہئے۔ (سورہ آل عمران، آیت 79)
پیغمبراکرم کی شخصیت کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیات رحمت، احسان، محبت، بخشش، شفقت اور وسعت نظر ہیں کہ اگر یہ خصوصیات ان میں نہ ہوتی تو پرتشدد اور جاہل عرب معاشرے کو تبدیل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ خدا نے نبی اکرم ؐ کو واضح طور مخاطب کیا ہے: اگر آپ سخت دل اور متشدد ہوتے تو یقینا وہ یہ لوگ آپ کے پاس سے بکھر جاتے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 128 میں ارشاد ہوتاہے: میرا رسول تم میں سے ہی ہے۔ یہ زور اس لئے دیا گیاہے کہ یہ نہیں سوچا جائے کہ پیغمبر اکرم ؐ کی عصمت الہٰیہ کی وجہ سے ان لوگوں کے لئے نمونہ نہیں ہوسکتے جن کے پاس یہ شرف نہیں ہے(سورہ احزاب، آیت 52).
تاریخ نے پیغمبر اکرم ؐ کے طرز عمل اور اخلاقی خصوصیات کی متعدد مثالیں پیش کی ہے۔ پیغمبر اکرم ؐ نے جنگ سے مکہ فتح نہیں کیا، بلکہ مکہ مکرمہ رحم سے فتح ہوا، اور فتح مکہ کے بعد، پیغمبرؐنے عام معافی کا اعلان کیا اور اپنے سب سے ضدی دشمنوں کو معاف کردیا۔ ابن ہشام نے آپ ؐ کی اپنی سوانح حیات میں بیان کیا ہے کہ فتح مکہ اور حالات کے پرسکون ہونے کے بعد، رسول اللہ ؐ طواف میں مشغول تھے اور ان کا کوئی صحابی اس کے ساتھ نہیں تھا۔ پیغمبر ؐ کے سخت دشمنوں میں سے ایک فضالہ بن عمیر لیثی نامی شخص تھا، جو اس کہانی کا راوی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب میں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھومتے ہوئے دیکھا اور کوئی ان کے قریب نہیں تھا تو میں نے نبی کریم ؐ کے قتل کا فیصلہ کیا۔ میں آہستہ آہستہ ان کے قریب گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم طواف کے دوران میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم کیا ڈھونڈ رہے ہو، کس فکر میں ہو؟ میں نے کہا: میں خدا کا ذکر کررہا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے۔ اس مسکراہٹ نے مجھے پرسکون کردیاآپ نے پھر فرمایا: آگے بڑھو، میں آگے بڑھا، نبی نے آہستہ سے میرے سینے پر ہاتھ رکھا، میرا دل نبی کے تئیں کینہ سے بھر ا ہوا تھا،لیکن جب انھوں نے پیار سے مجھے سینہ سے لگایا، میرا دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہوگیا۔ انہوں نے مجھے خدا سے معافی مانگنے کو کہا، اور میں نے فورا؛ ہی کہا، ''استغفر اللہ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمداللہ کے رسول ہیں۔ یعنی، نبی نے رحمت، محبت اور پیار سے دہشت گرد کو بدل ڈالا۔ انہوں نے قرآن مجید میں محبت اور بھلائی کے بارے میں خدا کے کلام کا حوالہ دیا اور کہا: سورہ فصلت کی آیات 34 اور 35 میں خدا نے کہا ہے: ''اچھائی اور برائی ایک جیسی نہیں ہیں۔ دوسروں کی برائیوں کا اچھائیوں سے جواب دو اگر تم ایسا کرتے ہو تو، جو تمہارے اور اس کے مابین دشمنی ہے وہ دوست کی طرح قریب تر مہربانی میں تبدیل ہوجائے گی، اور یہ صفت سوائے صبر کرنے والوں کے کسی میں نہیں ہوگی اور اس صفت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے مگر یہ کہ انسانی دانشمندی اور کمال سے ہمکنار ہو۔ ''نبی اکرم ؐ جاہل لوگوں کو تبدیل کرنے میں سب سے زیادہ جس چیز کا استعمال کرتے تھے وہ ہے یہ پیار اور شفقت۔ ایک اور مثال جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انسانوں کو تبدیل کرنے میں رحمت اور محبت سے تعلق رکھتی ہے وہ یہ ہے: روایت ہے کہ ایک بدو عرب، حضرت پیغمبر اکرم کے پاس آیا اور ان سے کچھ طلب کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کچھ دیا، لیکن وہ شخص مطمئن نہیں تھا اور اس نے ناشکری کی۔ صحابی اس شخص کے اس اقدام پر ناراض ہوئے اور اس سے نمٹنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن نبی نے انھیں خاموش رہنے کا ارادہ کیا۔ پھر اپنے ساتھ گھر لے گئے ا اور اسے کچھ اور دیا اور پوچھا کہ کیا وہ مطمئن ہے؟ اس عرب شخص نے نبی کریم کی زندگی اورشفقت کو دیکھا اور پھر کہا: ہاں. پھر پیغمبر اکرم نے اس سے کہا: تم نے میرے ساتھیوں کے سامنے جو کچھ کہا وہ ان کی ناراضگی کا سبب بنا اور میں چاہتا ہوں کہ تم ان کے سامنے اطمینان کا اظہار کرو تاکہ تمہاری طرف ان کا غم اور غصہ ختم ہوجائے۔ اس نے قبول کیا اور دوسرے ہی دن مسجد میں آگیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم، اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اس شخص نے کہا ہے کہ وہ مطمئن ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ اس نے کہا: ایسا ہی ہے۔ اس طرح نبی نے جسور اور ناشکری کرنے والے شخص کے دل کومسخر کیا اور اس کے خلاف کسی قسم کی جارحیت نہیں ہونے دی۔ نبی اپنے رحم دل تھے کہ جناب حمزہ کے قاتل کو معاف کردیا۔ اتنے رحم دل کہ احد کے حملے کے بعد جب لوگوں نے نبی سے مشرکین پر لعنت بھیجنے اور خدا سے ان کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے کی درخواست کی تو نبی نے ان کی مغفرت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ خدا انہیں معاف کردے، وہ نہیں سمجھتے، وہ جاہل ہیں۔ پیغمبر ؐ کے ساتھ بات چیت کرنے والوں نے کہا کہ وہ اس قدر حیا اور غیرت والے تھے کہ اگر کوئی نبی سے کوئی چیز مانگتاتا بشرطیکہ خلاف شرع نہ ہو توآپ ؐ نہیں،نہیں کہتے تھے۔
معاشرے کی تبدیلی پر حضور کے اخلاقیات کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے یہ دھیان رہے کہ نبی کے وقت معاشرہ ایک جاہل، متشدد اور غیر متوازن معاشرہ تھا۔؛نہج البلاغہ میں حضرت علی نے خطبہ 26 میں فرمایا اے گروہ عرب،تمہاری زندگی کیسی تھی۔ تم بدترین آئین پر تیں، بدترین مکانوں میں رہتے تھے،تمہاری زندگی انسانی زندگی نہیں تھی، گندا پانی پیتے تھے ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے؛ آپ نے مزید کہا: نبی اکرمؐ ایسی فضا میں آئے اور ایسے لوگوں سے ملے جو بہت ضدی تھے۔ان میں کچھ اچھی عادات کے ساتھ بہت ساری بری عادات بھی تھیں اور ان کی بری عادتیں اس قدر رنگین تھیں کہ اس نے اچھی عادات کا احاطہ کیا تھا اور ان میں ہر قسم کی فساد اور تباہی عام تھی۔ شرک و ظلم کے اندھیروں کے اس صحرا میں، ایک گلاب نما کرم نے ہر چیز کو اپنا رنگ میں رنگ لیا، رحمت اور محبت اس وقت کے جاہل معاشرے میں نبی کریم ؐکی کامیابی کی کلید تھی۔ قاضی عیاض نامی ایک عظیم عالم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے بارے میں لکھی گئی کتاب ''الشف ا بتعریف حقوق المصطفی'' میں حضرت علی ؑ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:ایک دن علی ؑ نبی ؐ کے پاس گئے اور آپ ؐ کی سنت کے بارے میں پوچھا۔ علی ؑ کے جواب میں، پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: ''محبت میرے طریقہ اور سنت کی اساس ہے''، اس کا مطلب یہ سب کچھ میں نے یہ محبت سے کیا، میرا طریقہ اور میری سنت،محبت اور بھا ئی چارہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، رحمت اور محبت پیغمبری کی راہ وروش کی شاہ کلید (master key)تھی، جس نے جاہل نظام کو بدل دیا۔
رومی نے اپنی مثنوی میں یوں اظہار کیا ہے:
او بہ تیغ حلم چندین حلق را وا خرید از تیغ و چندین خلق را
تیغ حلم از تیغ آہن تیزتر بل ز صد لشکر ظفر انگیزتر
نبیؐ کے قول و فعل ہمارے لئے ایک مثال ہیں۔ نبی نے اخلاص کے ساتھ کوشش کی اور الٰہی مشن کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ خدا بھی قرآن میں اس کی تصدیق کرتا ہے: اپنے آپ پر اتنا دباؤ مت ڈالیں اور پریشان نہ ہوں کیوں کہ کچھ چیزیں آپ کے قابو سے باہر ہیں اور آپ نے اپنی پوری کوشش کی ہے۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا نے اپنے مشن کو انجام دینے میں بہترین کردار ادا کیا۔ رسول اللہ ؐ کا سب سے بڑا سبق اخلاق تھا۔ معاشرے میں اخلاقی تبدیلی نے ایک ممتاز اور مثالی قوم تشکیل دی جو دوسروں کے لئے ایک نمونہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، انسانوں کو اچھا انسان بنانا اور زیور علم و اخلاق سے آراستہ کرنا پیغمبر اکرمؐ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا تھا: ''مجھے اخلاقی درجات کی تکمیل کی لئے مبعوث کیا گیا ہے۔''اعتدال اور میانہ روی'' کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی زندگی کے دیگراہم اصولوں میں سے شمار کیا جا سکتاہے۔ پیغمبر اکرم ؐ کبھی بھی انتہا پسندی پر نہیں جاتے تھے اور اعتدال پسند تھے اور مسلمانوں کو اعتدال پسند بنانے کی کوشش کرتے تھے.
یہ خدا کے رسول کی خواہش تھی کہ اخلاقی خوبیوں پر مبنی معاشرہ تشکیل پائے اور اپنے طرز عمل سے قرآنی اقدار کو متعارف کرائے۔ کسی نے رسول خدا سے پوچھا یا رسول اللہ! دین کا متن کیا ہے؟ آپ ؐ نے کہا: اخلاقیات کا دین۔ اخلاقیات، وہ پسندیدہ اوصاف ہیں جو نیک اور اچھے شمار ہوتے ہیں اور کتاب اللہ و رسول خدا کی سیرت ہمیں ایسا کرنے کی ترغیب دیتی ہے، اور انسانی فطرت اسے قبول کرتی ہے۔رسولؐ خدانے اپنے کردار سے بتایا کہ میں خوبیوں اور اقدار کو فروغ دینے کے لئے آیا ہوں۔ اگر معاشروں میں اخلاقیات موجودہیں، تو یہ اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اکرم ؐ کے آداب و سنت کا نتیجہ ہے.
حضور اکرم ؐ کے کردار کی جامعیت اور ان کی سیرت تمام مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ ہے،چنانچہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصول اور طریقہ کار ہی اسلامی معاشروں کا نصب العین ہوناچاہیے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہمارے اسلامی معاشرے کے لئے ایک مضبوط اور منظم ڈھانچہ تشکیل دینے میں بنیادی عنصر ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر مؤثر طریقے سے اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کے لئے آنحضرت ؐ کی محبت آمیز سیرت کو لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
مقالہ نگار: ایران کلچرہاؤس نئی دہلی میں ایران کے کلچرل کاؤنسلر ہیں۔
ichdelhi@gmail.com