Masarrat
Masarrat Urdu

گرمی کی چھٹیاں اور بچوں کا گم ہوتا پچپن

Thumb



چلچلاتی دھوپ، سخت گرمی کا موسم، پسینہ سے سرابور اور لو کا موسم یعنی جوش و ولولہ لانے والی چھٹیوں کا موسم جو لفظوں میں بیان نہ ہونے والی بچے اور بڑوں کی خوشیاں،... گاؤں کو جانا، دن بھر بڑے چھوٹے مل کر خوشیوں اور مسرت کے ساتھ وقت گزارنا، غلیل کے نشانے  لگانے سے شروع ہوکر پتنگ کے اڑانے تک، گلیوں، محلوں میں ملنے والی آئس کریم سے لیکر باہر بیٹھ کر ماں کے ہاتھ سے نوالے کھانے تک، ایک وقت تھا جہاں بڑوں سے لیکر بچوں تک گرمیوں کی چھٹیوں کے مزے لیا کرتے تھے اور جس کا سال بھر انتظار رہتا ہے، بچے اس کے لئے دن گنا کرتے تھے لیکن آج ایک وقت ایسا بھی ہے جہاں گرمی کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی کوچنگ، امتحانات، ایم سیٹ، آئی سیٹ، لانگ ٹرم.، شارٹ ٹرم، اور نہ جانے کیا کیا، جس کی بنا پر بچے نئے ماحول سے انجان ہیں، رشتوں سے انجان ہیں، ان مستیوں کے دوران بننے والے رشتے سے نامانوس ہیں اور رشتوں سے جڑنے کے مواقع بھی دستیاب نہیں ہورہے ہیں۔ کچھ وقفے کے بعد جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو زندگی کشمکش سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے وہ ان سرگرمیوں میں گم ہوجاتے ہیں جہاں رشتے بھی انجانے لگنے لگتے ہیں۔ لیکن بچپن کوملنے والی یہ چھوٹی سی آزادی بھی روز مرہ کی زندگی کی طرح ہی ہوگئی ہے۔یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم کا یہی خیال ہے کہ بچوں کو بچپن وہ تمام چیز ملنی چاہئے جہاں نہ صرف ان کی نشو و نما میں معاون و مددگار ثابت ہو بلکہ رشتوں کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو۔ماہرین نفسیات نے مختلف انداز میں اس کی وضاحت کی ہے۔


 افریقہ کا مشہور محاورہ ہے اس کا مطلب ہے کہ بچوں کی پرورش صرف ہم نہیں بلکہ سارا گاؤں کرتا ہے۔ بچوں کے بڑھنے میں ان کے اطراف و اکناف کا ماحول، ان سے تعلقات کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے جتنا ہوسکے بچوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں سے گھلنے ملنے کی ترغیب دینا ضروری ہے۔گاؤں کا ایک ایسا ماحول ہے جہاں بچے ہر طرح کی چیزیں سیکھتے ہیں۔ گھڑوں کا بنانا، گھروندوں کا بنانا، دھونڈ نکالنا، شہد نکالنا، بیل گاڑی پر سوار ہونا، کھیت جوتنا، ہل چلانا، یہ سب چیزیں بچوں کو حیرت زدہ ہی نہیں کرتیں بلکہ ان کے لئے آگے جاکر بہت کام میں آنے والی ہوتی ہیں۔ مستقبل میں ہمارے قوم کے تعلق سے انسانی زندگی اور خاص کر یہاں کے معاشی حالات کے تعلق سے جاننے میں بہت مدد گار ثاہت ہوتی ہیں۔ جنہیں گاؤں کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا وہ قوم کی سماجی اور معاشی بنیادوں کو نہیں سمجھ سکتے۔
گاؤں کی پنچایتوں سے شروع ہونے والی سیاست سے لیکر قوم کی سیاست کو سمجھنے میں کافی مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ قدرتی ماحول کے قریب گاؤں کو دیکھ کر بچوں میں موجود چھوٹے چھوٹے سائنس داں باہر آتے ہیں۔ کتنے ہی زندگی کے طور وطریقے انجان طور پر ہی سہی معائنہ کرتے ہیں۔ اس لئے بچوں کو ضروری ہے کہ گرمیوں کی چھٹی میں گاؤں کے ماحول میں بھیجا جائے تاکہ وہاں کے ماحول کو وہ محسوس کرسکے اور ان کی قدروں کو جان سکے۔
پیار و محبت، آزادی، ان سب کے علاوہ ذمہ دار ای کے ساتھ دیکھنا یہ سب بناشرطوں کے ملنے والی جگہ ایک ہی ہوسکتی ہے۔جو نانانانی، دادا دادی کا مقام ہے۔ جہاں بچے بے جھجھک پوری آزادی کے ساتھ رہ پاتے ہیں اوراپنے  جذبات و احساسات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں جو عام طور پر نہیں کرپاتے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جو بچے سے بہت کچھ باہر آتا ہے اور جو ان کی زندگی کے پروان چڑھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ والدین بھی اپنے بچوں کو بلاکسی شک و شبہ اور تردد و فکرو تشویش کے چھوڑ جاتے ہیں۔ جب گرمی چھٹیوں میں بچے اپنے رشتے ماما، مامی، پھوپھا پھوپھی، خالہ، خالو، چچا چاچی، تایا تائی وغیرہ رشتوں سے متعارف ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو انہیں رشتوں کا حقیقی مزہ اور اس میں پائی جانے والی خوشیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان سب کے ساتھ گھروالوں کی اہمیت ان سب سے زیادہ دنیا میں ہم اکیلے ہیں اس بات کا ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خاندانی طاقت کا بھی احساس ہوتا ہے اور ساتھ میں دس مہینے جن بندشوں میں گزار دیتے ہیں ان بندشوں سے آزاد ہوکر کیسے زندگی گزاری جاتی ہے اس بات کا احساس ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو کہانی سنانا، انتاکشری کھلینا، بیت بازی کرنا، گھر کے کاموں میں بڑوں کی مدد کرنا، چھوٹے بڑے مل کر سب کھانا کھانا، دوپہر کی دھوپ میں جب سارے بڑے آرام کر رہے ہوتے ہیں، توپچے سب ایک جگہ مل کر بناآواز کے شور کرتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی ناراضگی، لڑائی جھگڑے، دوبارہ سے پیار سے مل جانا، ندیوں تالاب میں نہانا، پگڈنڈیوں پرچلنا، درختوں  پر چڑھنا، آم، جامن، امرود وغیرہ کے پھل کر توڑ کر کھاناوغیرہیہ سارے تجربات اور ان سے جو کچھ بھی سیکھتے ہیں، وہ بڑے ہوکر ایک حسین یاد بن کر ان کے ساتھ عمر بھر رہتے ہیں اور آگے جاکر یہی تربیت وہ اپنے آنے والی نسلوں کو بھی دیتے ہیں۔یہ سارے تجربات اور احساسات گرمی کی چھٹیوں میں نہیں تو اور کہاں مل سکتے ہیں؟


ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ گرمی کے چھٹیوں میں بچوں کو چاہئے کہ وہ کم از کم دو سے تین دن ہمارے گھریلوماحول اور تہذیب سے الگ الگ اپنے دوستوں اور رفیقوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ ہمارا ہندوستان سیکولر ملک ہے جہاں مختلف رنگ، ڈھنگ، مختلف مذاہب، تہذیب و اطوار، رہن سہن کے لوگ رہتے ہیں، بچوں کو اگر اس طرح کا ماحول مہیا کروایا جائے تو ہمارے ہندوستان کے کلچر کو سمجھیں گے اور یہاں کے تہذیب سے مکمل واقفیت حاصل ہوجائے گی۔جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے اور ہر مذہب اور تہذیب کی قدر کرسکیں گے۔ مستقبل میں اگر ہاسٹل میں رہنے پڑے تو وہ سب کے لئے وہ تیار رہیں گے۔ 1980کا زمانہ یا اس سے پہلے جو بھی اس وقت کے کھیل کود، جیسے چار پتھر، آنکھ مچولی، رسی، اچھل کود.، پتنگ بازی، چور پولیس، بھاگم بھاگ، کبڈی، گلے ڈنڈے اور بہت سارے ایسے کھیل اس زمانے کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں کھوگئے ہیں۔ جہاں بچے یکجا ہوکر کھیلا کرتے تھے، نہ انہیں تہذیب اور مذہب کی فکر اور نہ اپنے پرائے کی فکر، سب ایک ہوکر کھیلا کرتے تھے۔ ایک آج کا زمانہ ہے جہاں ایک طرف تکنالوجی نے ترقی کی راہیں کھولی ہیں وہیں دوسری طرف رشتوں کی اہمیت ختم کردیا ہے اور انسانوں کے درمیان دوریاں پیدا کردی ہے۔ آج کا بچہ انسانی رشتوں سے دور بھاگتا ہے۔ بچہ دو سال کا بھی نہیں ہوتا ہے اسے موبائل کا چسکا لگ جاتا ہے اور ایک دن وہ عادت بن جاتا ہے۔گرمی کی چھٹیاں شروع ہی ہوتی ہیں کہ گھر میں موبائل لے لیا اور دیکھنا شروع  کردیا۔ یا پھر بچوں کے ماں باپ خود پڑھائی کے سلسلے میں اتنا تناؤ میں ڈال دیتے ہیں کہ چھٹیوں میں بھی ایکسٹر ا کلاسز کوچنگ اور ہنر سکھانے کے چکر میں نہ جانے کیا کیا کرواتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بچوں پر ذہنی دباؤ پڑتا ہے بلکہ وہ ماحول اور رشتوں سے بھی دور ہوتا چلاجاتا ہے۔ ماہرین نفییات کا کہنا ہے کہ بچوں کو بچوں کے پیرائے میں ہی دیکھا جائے۔ 
ایک قوم میں جنگ نہ ہونے دینا اس قوم کی سیاسی کارکنوں کا کام ہے اسی طرح سماج کے ساتھ سب کے ساتھ مل کر رہنے کا سلیقہ تعلیم کے ذریعہ ہی آتا ہے۔ ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ جتنا ہوسکے ہم اپنے بچوں کو ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے ان کا تعارف کروائیں تاکہ وہ ہماری تہذیب کو جان سکے اور ان کو قبول کرسکے۔

ریسرچ اسکالر (پی ایچ ڈی)

 

Ads