مغربی ممالک کا ایک ایسا مقام ہے ،اس کے تئیں ایک ایسی خوش گمانی ہے جہاں ہر شخص کودیکھنے میں تو ہیرے کی ما نند سب کچھ لگتا ہے جسے ہر شخص اپنی انگوٹھی میں سجانا چاہتا ہے وہاں اپنے ارمانوں کا خواب بننا چاہتا ہے لیکن درحقیقت وہاں کیا ہے اور کس طرح وہا ں تنگ نظر ی یا فراخ دلی ہے ؟اصل میں وہاں کے مسلمانوں پر ہیرا خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنا دوسرا رخ ’زہر‘ کی ما نند ہے۔ایک ہیرے میں جتنا زہر ہوتا ہے اتنا ہی زہر وہاں کے لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے اور آئے دن وہاں کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرتی ہے اور زہر بھی اگلتی ہے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے۔ دراصل وہ لوگ اسلاموفوبیا کے شکار ہیں وہ انجانے خوف کے شکار ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسلام آیا تو ہمارا کیا ہوگا ،ہمارے رسم و رواج کا کیا ہوگا، ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائیگا۔اسلام مذہب کی اخوت سے ڈرتے ہیں یہ لوگ۔ ،کیونکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ اسلام کی اخوت میں بہت طا قت ہے۔2009 میں اوباما نے بھی تاریخی خطبہ میں مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کرنے کی بات کہی تھی لیکن اس پر بھی کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
نائن الیون کے بعد تو جیسے مسلمانوں کا سب کچھ ختم کرنے کی ٹھان لی تھی۔ مختلف ممالک میں اسلام اور مسلمان پر حملے ہوئے تھے۔ان لوگوں نے تو مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ مغربی ممالک میں تو ان لوگوں پر اونچے درجے کے جاب کرنے پر بھی پا بندی لگانے کی کوشش کی ،اگر مسلم لڑ کیا ں اسکارف لگاتی ہیں تب تو جاب کرنے کی سوچنا بھی گنوارا نہیں۔ ایرپورٹ، بسوں، پبلک ٹرانسپورٹوں، عوامی مقامات پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ جگہ جگہ ا ن پرحملے ہوئے ۔ان کا اسکارف چھینا گیا۔ بے پردہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی کی نقل کرتے ہوئے ہمارے ملک عزیز بنگلور میں ہندوتو کے علمبردارں نے مسلم طالبات پر حملہ کیا تھا ۔
مغربی ممالک کے امتیاز برتنے والوں نے اپنی گھٹیا سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہنے لگے کہ اسکارف لگانے والی لڑ کیا ں جاب کر سکتی ہے لیکن بیت الخلا صاف کرنے والی ،اتنی زیادہ تعصب پسندی ہے ان لوگوں میں،مسلمانوں کی ہر عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، مسلمانوں کے لئے راہیں مسدودبہت سخت ہیں اسلئے مسلمانوں کو ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا صبر و تحمل کے ساتھ،مانا کے راہوں میں دشواریاں بہت ہے لیکن ہم مسلمانوں کو صبر کا دامن نہیں چھوڑناچاہئے،
ان کی سختی کو نرمی میں بدلنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔اس بات کا پورا پورا خیال رکھا جائے کہ ہم ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں اگر کوئی ہم پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے،یا ہماری راہوں کو ناہموار کرنے کی کو شش کرے تو ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔
ہماری ہمت و رواداری ،ہماری بہادری کے کارنامے ،ہماری یکجہتی کے چرچے دنیا میں تھا اور رہے گا بس اپنے اخلاَقی معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا ایک بار پھر سے ہمارا امتحان لیا جا رہا ہے ہماری بقاء کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک بار پھر سے اپنی قوم میں یکجہتی لانی ہوگی، کیوں کہ اسلام زندہ ہوتا ہے کہ ہر کربلا کے بعد