انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ہدایہ جے پور میں 19 اپریل 2017کو دارالقضاء کا قیام عمل میں آیاجس کے قاضی مولانا محمد شمشاد ندوی ہیں اور ان آٹھ سالوں میں پانچ سو سے زیادہ مقدمات باقاعدہ رجسٹرڈ ہوکرحل ہوئے، وہ مقدمات جو صرف زبانی افہام و تفہیم سے حل ہوگئے وہ الگ ہیں۔ اب دارالقضاء جئے پور میں درج ہونے والے معاملات کی تعدادسالانہ سو سے زائد ہوتی ہے۔ یہ سو معاملات عدالت میں جاتے تو ہر لڑکی شادی بیاہ کے معاملہ میں کم ازکم تین مقدمات کورٹ میں درج کراتی ہے اور شوہر کم ازکم ایک مقدمہ کورٹ میں درج کرتا ہے، تو اس حساب سے دارالقضاء میں درج ہونے والا ہر معاملہ کورٹ میں کم از کم چارسے پانچ مقدمہ بنتا ہے۔ دارالقضاء جے پور سے اگر سال میں ایک سو معاملہ حل کیا گیا تو جے پور کی فیملی کورٹ سے تقریبا چار سو مقدمات کم ہو گئے، نیز دارالقضاء میں کسی معاملہ کے حل ہونے میں اوسطا چار ماہ کا وقت لگتا ہے، جبکہ سرکاری عدالتوں میں سول مقدمات میں کم ازکم چار سال لگتے ہیں،تو اگر یہ مقدمات کورٹ میں جاتے تو چار سومقدمات بنتے اور چار سال تک چلتے، تو اندازہ لگائیں کہ کورٹ پر کتنا بوجھ بڑھتا، ایسے حالات میں جب اس ملک کی عدلیہ میں تقریباساڑھے پانچ کروڑ مقدمات پینڈنگ ہیں، جن کے حل کرنے میں اگر آج سے ایک بھی مقدمہ درج نہ کیا جائے، صرف پرانے مقدمات کا فیصلہ کیا جائے،تو موجودہ سرکاری عدالتی نظام سے ان پینڈنگ مقدمات کو حل کرنے میں تقریبا چار سو سال لگیں گے۔
انہوں نے کہاکہ آج ملک کی ان ریاستوں میں جہاں امارت شرعیہ کا نظام نہیں ہے اور کوئی منظم شرعی نظام انصاف نہیں ہے وہاں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے دارالقضاء قائم کئے جار ہے ہیں، جن کی شرعی اور قانون ذمہ داری و نگرانی بورڈ کرتا ہے۔پور ے ملک میں 14 ریاستوں میں کل 92 دارالقضاء کام کر رہے ہیں، راجستھان میں بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی زیر نگرانی چھ دارالقضاء مسلمانوں کے اختلافات و تنازعات کو حل کرنے کا کام کرہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ دارالقضاء سے مسلمانوں کا کتنا مالی فائدہ ہوا، جن لوگوں کو سرکاری عدالتوں کا واسطہ پڑتا ہے وہ بخوبی واقف ہیں کہ وکلاء کی فیس کس قدر مہنگی ہو چکی ہے، ہائی کورٹ سپریم کورٹ تک تو عام شہریوں کی پہنچ ہی مشکل ہو گئی ہے، نچلی عدالتوں میں ایک مقدمہ پر ایک فریق کا سالانہ کم از کم دس ہزار روپئے خرچ ہونا معمولی بات ہے، دارالقضاء جئے پور نے گذشتہ سال سو مقدمات حل کئے اگر یہ کورٹ جاتے تو کم ازکم چار سو مقدمات بنتے،اگرہر مقدمہ میں ہر دو فریق کاکم از کم دس ہزار سالانہ خرچ آتا تو اس حساب سے گذشتہ سال جئے پور کے مسلمان سالانہ تقریبا اسی لاکھ روپئے عدالتوں میں خرچ کر دیئے ہوتے، دارالقضاء جئے پور سے جئے پور کے عام مسلمانوں کاسالانہ اسی لاکھ کی بچت کوئی معمولی کام نہیں ہے، نیز عدالتوں میں جو ذہنی اور جسمانی تکلیف ہوتی وہ اس سے الگ ہے۔
مولانا مجددی نے دارالقضا کی حسن کارکردگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ بورڈ کے دارالقضاء کا نظام اتنا منظم اور غیر جاندار ہے کہ متعدد سیاسی لیڈران، فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے افرادنے بھی اپنے اختلافات اور جھگڑوں میں دارالقضاء کی طرف رجوع کیا یہاں تک بعض دارالقضاؤں میں غیر مسلموں نے بھی درخواست دی کہ ہمارے جھگڑے کا تصفیہ یہیں سے کر دیا جائے، اور بعض دارالقضاؤں میں سرکاری محکموں اور پولس اسٹیشن سے بھی مقدمات دارالقضاء بھیجے گئے، جو دارالقضاؤں کی حسن کار کردگی کی واضح دلیل ہے۔
قبل ازیں تلخیص مقالات کی روشنی میں تجاویز منظور کی گئیں۔ اظہار خیال کرنے والوں میں مفتی انظار عالم قاسمی قاضی شریعت امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ، مفتی اشفاق احمدقاسمی، مفتی اشفاق قاضی وغیرہ شامل تھے۔ ساتھ قاضیوں کو پیش آنے والے مشکلات کے بارے میں ایک تربیتی کیمپ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سیشن کی صدارت مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کی، خرابی صحت کے سبب وہ صدارتی خطبہ نہ دے سکے۔ نظامت کے فرائض مفتی تبریز عالم قاسمی نے انجام دیا۔