Masarrat
Masarrat Urdu

کیا کانگریس ’’مہاگٹھ بندھن ‘‘کو ’’گٹھ بندھن ‘‘ بنارہی ہے؟

 

چند ہی ہفتے قبل راقم الحروف نے ان ہی کالموں میں لکھا تھا کہ تمام مخالف بھاجپا جماعتوں کے اتحاد اور ان پر مشتمل عظیم اتحاد (مہاگٹھ بندھن) کے قیام میں کانگریس اور بھاجپا سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے کالم کی اشاعت کے بعد پیش آنے والے واقعات نے ہمارے نقطہ نظر کی مکمل توثیق کردی۔ 
پہلے بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایا وتی نے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس سے دوری اختیار کی جس کا کوئی فائدہ مایاوتی کو تو ہوا نہیں الٹا بھاجپا کو ہی فائدہ ہوا۔ اس کے بعد یو پی میں مایاوتی کی بی ایس پی اور اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹیوں کے اتحاد کا اعلا ن ہوا۔ اس اتحاد میں کانگریس شامل نہیں تھی کیونکہ مدھیہ پردیش میں کانگریس نے اپنی کابینہ میں سماج وادی پارٹی کے رکن کو شامل نہیں کیا۔ اسی لئے یو پی میں قائم ہوئے اتحاد سے کانگریس کو دور رکھا گیا ہے۔ یوپی وہ ریاست ہے جہاں سے لوک سبھا کے لئے 80 ارکان کا انتخاب ہوتا ہے۔ دہلی میں حکومت کرنے کے لئے یو پی پر قبضہ ضروری مانا جاتا ہے۔ اگر یو پی میں تمام مخالف بھاجپا جماعتیں متحد ہوجائیں تو ملک کی سب سے بڑی ریاست میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات ختم ہوسکتے ہیں لیکن حالات کے باعث اس خیال کو زیادہ تقویت نہیں ملتی ہے۔ یو پی کی حدتک بی ایس پی اور ایس پی کے اتحاد سے دور رکھے جانے کی ذمہ دار خود کانگریس ہے۔ 
کانگریس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب بھی اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ کیونکہ وہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اس لئے تمام علاقائی جماعتوں کو کانگریس کی برتری تسلیم کرکے اس کی قیادت میں کام کرنا چاہئے۔ حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ کانگریس اب ماضی کی طرح نہ طاقتور ہے اور نہ ہی مقبول رہی ہے۔ یوپی اور بہار کی ریاستوں میں اس کی طاقت بہت زیادہ گھٹ چکی ہے اور کانگریس اگر بی جے پی کو 2019ء کے انتخابات میں اقتدار سے دور رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ تمام مخالف بھاجپا جماعتوں کو اپنے ساتھ رکھے اور اپنی مفروضہ طاقت کی حقیقت سمجھے اور چند نشستوں کی اکھلیش کی طرح قربانی دے کر بی جے پی کے خلاف عظیم اتحاد قائم کرے نہ کہ یہ سمجھ لے کہ وہ جس ریاست میں چاہے علاقائی جماعتوں کو اپنی مرضی کے مطابق نشستوں کا کوٹہ دے سکتی ہے۔ کانگریس کی اسی پالیسی کی وجہ سے مایاوتی نے کانگریس سے اتحاد نہیں کیا اور مدھیہ پردیش کی کابینہ میں سماج وادی پارٹی کو نہیں شامل کرکے اپنے کو بڑی حدتک اکیلا کرلیا ہے۔ 
یہاں یہ بات قابل ذکر ہوگی آزادی سے قبل 1937ء میں ہوئے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد کانگریس اگر یو پی کی کابینہ میں مسلم لیگ کو نمائندگی دے دیتی تو مسلم لیگ مطالبہ پاکستان شائد نہ کرتی اور ملک تقسیم نہ ہوتا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کانگریس اب بھی ماضی کی پالیسی پر عمل پیراہے۔ ان ریاستوں میں جہاں علاقائی جماعتوں کی حکمرانی ہے وہاں کانگریس حکمراں جماعتوں کی (جو غیر بھاجپائی ہیں) شدید مخالفت کررہی ہے۔ مثلاً بنگال کی ترنمول کانگریس، دہلی کی عاپ اور تلنگانہ کی ٹی آر ایس ۔ ان ریاستوں میں کجریوال، کے چندر شیکھر اور ممتابنرجی کی کانگریس مخالفت نہ کرے اور ان سے انتخابی سمجھوتہ کرلے تو 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس عظیم اتحاد کے قیام میں ہی نہیں بلکہ بھاجپا کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم رول ادا کرسکتی ہے لیکن ان ریاستوں میں کانگریس علاقائی جماعتوں کی اسی طرح مخالفت کررہی ہے جیسے کہ ان ہی ریاستوں میں بی جے پی کی مخالفت کررہی ہے۔ کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ ریاستوں کی علاقائی جماعتوں اور بھاجپا کو اکیلے شکست نہیں دے سکتی ہے۔ کانگریس کو مختلف ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کی قیادت کی جگہ ان جماعتوں سے انتخابی سمجھوتے کرکے بی جے پی کو شکست دینے کی راہ ہموار کرنی ہوگی۔ 


Rasheed Ansari
Ph: 07997694060
 

Ads