Masarrat
Masarrat Urdu

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ

  • 21 Dec 2018
  • عبد العزیز
  • مذہب


اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں تفصیل سے وہ مقصد بیان کیا گیا ہے جس کیلئے مسلمان پیدا کئے گئے ہیں اور اس’’ اصلی خدمت ‘‘کی نشاندہی بار بار کی گئی ہے، جس کو انجام دینے کیلئے ان کی قوت کو ترقی اور تحفظ دینے کیلئے سارا اہتمام و انتظام کیا گیا ہے ۔ 
’’تم سب سے بہتر امت ہو جسے لوگوں کی خدمت و ہدایت کیلئے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘۔(آل عمران 190)
’’منافق مرد اور عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ‘‘۔ (التوبہ 112)
’’وتواصو با لحق وتواصو بالصبر ‘‘(وہ آپس میں سچائی اور ثابت قدمی کی ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں)۔
’’وتواصو با لصبر وتواصو با لمرحَمَہ‘‘ (اور آپس میں ثابت قدم رہنے اور مہربانی کرنے کی ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں) ۔( بلد 17)
قرآن حکیم میں اس اخلاقی فرض کی ادائیگی سے منھ موڑنے والوں کو تباہی و بربادی کی خبر دی گئی ہے ۔ بنی اسرائیل کا ایک قصہ بیان کیا گیا ہے۔بنی اسرائیل کیلئے سبت (سنیچر) کے دن کسی قسم کا دنیاوی کام کرنا حرام تھا ۔بنی اسرائیل کی آبادی سمندر کے کنارے آباد تھی، وہ حیلہ کرکے سبت کے دن مچھلی پکڑ لیتی تھی۔ اس موقع پر اس آبادی میں تین گروہ ہو گئے۔ ایک وہ جو اس گناہ کا اعلانیہ مرتکب ہوتا تھا۔ دوسرا گروہ جو اس فعل سے ا ن کو باز رکھنے کی کوشش کرتا تھا اور اس کو سمجھاتا تھا ۔تیسرا گروہ جو اگر چہ اس فعل میں شریک نہ تھا لیکن ان کو سمجھانے اور باز رکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا بلکہ خود سمجھانے والوں سے کہتا تھا کہ ایسے نا آشنا لوگوں کو سمجھانے سے کیا فائدہ جن کو اللہ تعالیٰ ان کے اس جرم کی پاداش میں ہلاک کرنے والا ہے لیکن ان پر جب عذاب الٰہی آیا تو صرف وہ دوسرا گروہ بچ گیا جو اپنی تبلیغ کے فرض کو ادا کر رہا تھا بقیہ پہلا اور تیسرا گروہ برباد ہو گیا۔پہلا تو اپنے گناہ کی بدولت اور دوسرا اپنے فرض تبلیغ کو ترک کرنے کے سبب سے ۔سورہ اعراف کے بیسویں رکوع میں پورا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ قصہ صاف صاف بتاتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اپنے دوسرے بھائیوں کو گرنے سے بچانا اور گرتوں کو سنبھالنا اور سہارا دینا کتنا اہم ہے ۔ اس کے اخلاقی فرائض کا یہ کیسا ضروری حصہ ہے۔ اگر اس کو ادا نہ کیا جائے تو وہ بھی ایسا ہی گنہگار ہے جیسا وہ اس فعل کا مرتکب ہو ۔ آنحضرت ﷺ نے بنی اسرائیل کے مبتلائے عذاب ہونے کی حقیقت کچھ اس طرح بیان کی ہے ۔
’’جب ان میں کا ایک آدمی دوسرے سے ملتا تو کہتا کہ اے شخص اللہ سے ڈر اور یہ فعل چھوڑ دے جو تو کرتا ہے کیونکہ یہ تیرے لئے جائز نہیں ہے مگر دوسرے دن جب اس سے ملتا تو اس کا ہم پیالہ و ہم نوالہ اور ہم نشیں بننے سے کوئی چیز اسے باز نہیں رکھتی۔آخر ان پر ایک دوسرے کی برائی کا اثر پڑ گیا اور ان کے ضمیر مردہ ہو گئے۔
جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے تو دفعتہ لیٹے لیٹے اٹھ بیٹھے اور جوش میں آکر فرمایا:
’’ اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تمہیں لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف موڑو ورنہ اللہ تمہارے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا یا تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح ان لوگوں پر کی تھی ‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بہت مشہور ہے۔
’’تم میں سے کوئی شخص کوئی برائی دیکھے تو اس کو چاہئے کہ اسے ہاتھ سے بدل دے، اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا سمجھے اور روکنے کی خواہش رکھے، یہ ایمان کا ضعیف ترین حصہ ہے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہاتھ، زبان اور دل سے کن لوگوں کے خلاف جہاد کرنا ہے ۔
دوسروں کے حق مارنا، باطل کی حمایت کرنا،حق و صداقت کو دبانا،کمزوروں اور ضعیفوں کو ستانا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور یہ ایسے ہی دوسرے تمام خلافِ انسانیت، خلاف عقل اور خلاف فطرت اعمال منکر ہیں اور ان سے خود احتراز کرنا اور دوسروں کو باز رکھنا عن المنکر ہے ۔امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی ترتیب سے صاف پتا چلتا ہے کہ خود نیک بننا اور بدی سے پرہیز کرنا مقدم رکھا گیا ہے اور نیک بننا اور بدی سے روکنا مو خر۔اور یہ حقیقت بھی ہے اور ضروری بھی ہے کہ نیک بنانے سے پہلے نیک بننا ضروری ہے لیکن علماء حق کا کہنا ہے کہ جس طرح اپنا پیٹ بھرنے سے دوسرے کا پیٹ بھرنا زیادہ افضل ہے اسی طرح فضیلت کے اعتبار سے نیکی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے کا درجہ بھی نیک بننے اور بدی کو ترک کرنے سے زیادہ ہے کیونکہ ایک اپنی خدمت ہے اور دوسری اپنے ابنائے نوع کی خدمت ایک محض انسانیت کے درجہ میں ہے اور دوسری انسانیت کاملہ کے درجہ میں ۔نیکی پر خود عمل کرنا اور بدی سے پرہیز کرنا یقیناًایک اچھی صفت ہے اور ایک آدمی کا شیوہ ؛ مگر شرافت کا کمال اور بزرگی کا اعلیٰ درجہ اس وقت تک کسی کو نصیب نہیں ہو سکتا جب تک وہ دوسرے لوگوں کو بھی نیکو کار بنانے اور بدی کو روکنے کی کوشش نہ کرے۔ 
مولانا مو دودی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ انسان کی فطرت ہے کہ اگر اسے کوئی چیز نا پسند ہوتی ہے تو اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اگر نا پسندی سے ایک درجہ بڑھ کر نفرت ہوتی ہے تو اسے دیکھنا یا سننا بھی بر داشت نہیں کر سکتا۔ اگر نفرت سے ایک درجہ بڑھ کر دشمنی ہو جاتی ہے تو اسے مٹانے کے درپہ ہو جاتا ہے۔ اور اگر دشمنی سے بڑھ کر اس کے دل میں بغض و عناد کے شدید جذبات پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر وہ اس کو مٹانے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیتا ہے اور اس طرح ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتا ہے کہ جب تک اسے صفحہ ہستی سے محو نہ کر دے چین نہیں لیتا۔ اس طرح جب وہ کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو خود اعتبار کرلیتا ہے ۔جب محبت کرتا ہے تو اس کو آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے اسکا ذکر سننے میں مسرت محسوس کرتا ہے۔ جب محبت سے بڑھ کر عشق کا درجہ آتا ہے تو چاہتا ہے کہ دنیا کے ذرہ ذرہ میں اس کا جمال ہو اور زندگی کا کوئی لمحہ بھی غیر کو دیکھنے اور غیر کا ذکر سننے اور غیر کا تصور کرنے میں ضائع نہ ہو، پھر اگر یہ عشق فدائیت کی حد تک بڑھ جائے تو وہ اپنی زندگی کو اسی کی خدمت کیلئے وقف کر دیتا ہے اور اپنی جان و مال ، عیش و آرام ، عزت و آبرو غرض سب کچھ ا س پر نثار کردیتا ہے، پس امر با لمعروف جس چیز کا نام ہے وہ دراصل نیکی ہے۔ انتہائی شگفتگی اور والہانہ عشق ہے اور نہی عن المنکر سے جس چیز کو تعبیر کیا گیا ہے وہ دراصل انتہائی بغض و عناد ہے۔معروف کا حکم دینے والا صرف نیک نہیں ہو تا بلکہ نیکی کا عاشق اور فدائی ہوتا ہے اور منکر سے روکنے والا صرف بدی سے محترز ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا دشمن اور اس کے خون کا پیاسا ہوتا ہے‘‘۔
ہمارے خیال سے نیکی اگر بدی کی دشمن نہ ہو روشنی اگر تاریکی کو نہ مٹائے تو نیکی نیکی نہیں ہے، روشنی روشنی نہیں ہے بلکہ کچھ اور شئے ہے۔ اسی طرح ہے جو نیکوکار اور بدکاروں کیلئے چیلنج نہ بن سکے جس کی نیکی باطل کیلئے کوئی خطرہ نہ ہو وہ نیکو کار نہیں ہے اور وہ نیکی نیکی نہیں ہے ۔ ایسا آدمی جس کی زندگی کا مقصد اپنی تن پروری اور اپنے نفس کی خدمت کے سوا کچھ نہ ہو حقیقت میں وہ ایک عقلمند حیوان سے زیادہ وقعت نہیں پا سکتا۔ اسی طرح کوئی ایسی انسانی جماعت بھی متمدن جانوروں سے زیادہ وقعت یا حیثیت نہیں رکھتی جس کی کوششوں کا دائرہ صرف اپنی اصلاح و فلاح، اپنی ترقی وبہبود، اپنے امن و چین تک محدود ہو اور عام انسانی فلاح سے اس کو کچھ مطلب نہ ہو اگر ایک ایسے آدمی کو جو اپنے گھر یا اپنی دکان کی آگ بجھانے، اپنے حقوق کی حفاظت کرنے اور اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی مدافعت کرنے میں تو خوب مستعد ہو لیکن دوسرے کے گھر کو جلتا دیکھ کر دوسرے کے حقوق پامال ہوتے اور دوسرے کی جان و مال عزت و آبرو کو خطرے میں یا مٹتے دیکھ کر ٹس سے مس نہ ہوتا ہو اسے ایک بہترین آدمی تو کہنا درکنار ایک اچھا آدمی بلکہ ’’آدمی ‘‘ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ بیشک اسی طرح ایسی ملت، ایسا گروہ، ایسی قوم ایسی جماعت کو بہترین یا کم از کم شریف قوم یا جماعت، شریف گروہ یا دَل نہیں کہا جا سکتا جو صرف اپنی آزادی کو محفوظ رکھنا، اپنے استقلال کی حمایت کرنا اور اپنے آپ کو سارے خطرات سے بچانا چاہتا ہو اور دوسرے کے حقوق ،آزادی اور عزت و آبرو سے کوئی سروکار نہ رکھتا ہو ۔
(یہ تحریر آج سے 39 سال پہلے کی ہے بغیر کسی ترمیم و اضافہ کے پیش کی گئی ہے۔ع۔ع) 
E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068

Ads