پرنسپل نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے یہ انتباہ گزشتہ روز یہاں امریکی محکمہ خارجہ کی باقاعدہ بریفنگ میں دیا۔ بریفنگ میں پوچھا گیا تھاکہ ہندوستان نے ایران میں چابہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے دس سالہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ہندوستان اسے چین کی طرف سے پاکستان میں تعمیر کی گئی بندرگاہ کے مقابلہ کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس سوال پر کہ خاص طور پر ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے امریکہ کا کیا موقف ہے، مسٹر پٹیل نے کہا کہ امریکہ ان رپورٹس سے واقف ہے کہ ایران اور ہندوستان نے چابہار بندرگاہ کے حوالے سے معاہدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ہندوستانی حکومت کو چابہار بندرگاہ کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کے بارے میں بات کرنے دوں گا۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، ایران پر امریکی پابندیاں برقرار رہیں گی اور ہم انہیں برقرار رکھیں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پابندیوں کے تحت ہندوستانی کمپنیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار کہا ہے کہ کوئی بھی ادارہ، کوئی بھی شخص جو ایران کے ساتھ تجارتی معاہدے پر غور کر رہا ہے، انہیں اس سے آگاہ ہونا چاہیے، ممکنہ خطرات جو وہ خود کو پابندیوں کے سامنے لا رہے ہیں۔
جب پٹیل سے دوبارہ پوچھا گیا کہ کیا کسی کو اس کے لیے خاص طور پر کوئی چھوٹ نہیں ملی، تو انھوں نے صاف کہا کہ کسی کو کوئی چھوٹ نہیں ملی۔
قابل ذکر ہے کہ سال 2018 میں امریکہ نے ایران کی چابہار بندرگاہ کے حوالے سے ہندوستان کو رعایت دینے کی بات کی تھی لیکن اس بار امریکہ نے 'پابندیوں کے ممکنہ خطرے' کی بات کرتے ہوئے اپنے موقف میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔
ہندوستان نے پیر کے روز طویل مذاکرات کے بعد 10 سال تک خلیج عمان کے ساتھ واقع اسٹریٹجک چابہار بندرگاہ کو تیار کرنے اور چلانے کے لیے ایران کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ چابہار میں شاہد بہشتی بندرگاہ کے آپریشن کے لیے اس طویل مدتی معاہدے پر انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ اور ایران کی بندرگاہوں اور میری ٹائم آرگنائزیشن کے درمیان بندرگاہوں اور جہاز رانی کے مرکزی وزیر سربانند سونووال اور ایران کے سڑکوں اور شہری ترقیات کے وزیر مہرداد کی موجودگی میں دستخط کیے گئے۔ علاقائی رابطے میں ایک نیا باب ہے۔
خیال رہے چابہار بندرگاہ پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے ہندوستان کو افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے متبادل راستہ فراہم کرتی ہے۔ پاکستان نے ہندوستان کو ان علاقوں تک زمینی رسائی سے انکار کر دیا ہے۔ چابہار ممبئی کے جواہر لعل نہرو پورٹ ٹرسٹ سے روس کے سینٹ پیٹرز برگ تک مجوزہ بین الاقوامی نارتھ-ساو¿تھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (آئی این ایس ٹی سی ) کا بھی حصہ ہے، جو بحر ہند اور خلیج فارس کو ملانے والا ایک کثیر الجہتی ٹرانسپورٹ روٹ ہے۔ چابہار کی گہرے سمندری بندرگاہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کو چھوڑ کر ایک متبادل راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔ جنوب مشرقی ایران میں واقع یہ بندرگاہ ہندوستانی تعاون سے تیار کی گئی ہے۔