Masarrat
Masarrat Urdu

روہنگیا مظلوم مسلمانوں کی مدد انسانی فریضہ اور برمی مہاجرین کا حق

Thumb

 

کھجوری کی جامع مسجدمیں روہنگائی مسلمانوں کی مدد کے لئے جمعیۃ علما ہند کا وفد معروف عالم دین مولانا محمد غیور قاسمی کی قیادت میں جدید ملبوسات تقسیم کرنے کے لئے پہنچا۔اس وفد میں شامل مولانا تنویر احمد،قاری صغیر احمد، حاجی سعید الدین، حافظ شاہنواز،محمد نسیم وغیرہ شامل تھے جن کے ہاتھوں 47خاندانوں کے تقریبا 300مردو خواتین میں 800نئے سوٹ تقسیم کئے جس سے نامساعد حالات سے دوچار مستحقین نے راحت کی سانس لی اور جمعیۃ علما ہنداور اس کے قائدین مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری ا ور مولانا محمود مدنی کی تشکر آمیز ستائش کی۔اس موقع پرمولانا محمد غیور قاسمی نے کہا کہ موسم سرما کی آمد ہوچکی ہے اور روہنگیائی پناہ گزینوں کو ضروریات زندگی کی اشد ضرورت ہے جس میں لحاف کمبل ،گرم ملبوسات میں سوئٹر،جیکٹ، گرم چادریں ،جوتے موزوں کے علاوہ اشیاء خوردونی میں دال چاول ، آٹا چینی ، تیل مسالہ وغیرہ شامل ہے جبکہ معصوم بچوں کے لئے دودھ پاؤڈر،بسکٹ کی سخت ضرورت ہے ۔انہوں نے مخیر اصحاب حیثیت لوگوں کومتوجہ کرتے ہوئے کہا کہ مستحقین کی مدد کے لئے جددو جہد کرنا بارگاہ ایزدی میں پسندیدی اور محبوب عمل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جو بندہ حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں مصروف رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی غیبی مدد فرماتا ہے اورایسے افراد کا مقام دنیا اور آخرت میں بلند ہوتا ہے ۔
غریب غربا کی مالی امداد: مختلف انسانی معاشروں اور غالب تہذیبوں نے غریب، محتاج، مسکین، مفلس اور مجبور کو ہمیشہ سے حقیر، کم تر اور قابلِ نفرت جانا۔ زمانۂ جاہلیت سے پہلے خود عرب میں بھی ان لوگوں پر عرصۂ حیات تنگ تھا۔ غریب ہونا ایک گالی اور ایک ایسا جرم تھا کہ جس کی سزا ساری زندگی ملتی رہتی، غریب اور اس کا خاندان معاشرے کے ہر صاحبِ حیثیت کا ادنیٰ غلام اور خادم سمجھا جاتا۔مگر یہ ظلم و ستم اور قہر و جبر کے غیر انسانی رویّیدرحقیقت، تاریخِ انسانی کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ دنیا میں جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور نبی آخرالزماں، محسنِ انسانیت، رحمت العالمین، حضرت محمد مصطفیٰؐ مسندِ رسالت پر جلوہ افروز ہوئے، تو آپؐ نے اللہ کے احکامات کی روشنی میں غریب، محتاج اور مسکین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے بارے میں لوگوں کو سخت ترین عذاب کی وعید سنائی اور انہیں پابند کیا کہ وہ اپنے مال کا ایک حصّہ ان بیکس لوگوں پر خرچ کریں، تاکہ وہ جنّت میں بہترین انعام پاسکیں۔ اللہ تعالیٰ، سورۃ الذٰرّیت میں فرماتا ہے’’ وہی متّقی لوگ بہشت کے باغوں اور چشموں کے کناروں پر عیش سے رہیں گے، جو اپنے مال کا ایک حصّہ دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘


سورۃ المعارج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’جن کے مال میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں دونوں کا حصّہ مقرر ہے، یہی لوگ جنّت میں عزت و اکرام سے ہوں گے۔‘‘ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ تم ان غریب غربا کو دے کر کوئی احسان نہیں کرو گے، بلکہ اللہ نے تمہارے مال میں ان کا حصّہ مقرر فرما دیا ہے۔ چناں چہ اگر ان کا حصّہ پہنچاؤ گے، تو انعام کے مستحق ہوگے۔ صحابہ اکرامؐ نے حضور نبی کریمؐ سے استفسار کیا کہ ’’یا رسول اللہ ؐ! ہم اپنے مال کو کہاں خرچ کریں؟‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے احکامات نازل فرمائے۔’’آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں خرچ کریں؟ آپ فرما دیجیے کہ تم جو مال خرچ کرو، وہ والدین، رشتے داروں، یتیموں، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو نیکی تم کروگے، اللہ تعالیٰ اس سے بہ خوبی واقف ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ)بلاشبہ، جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اللہ ان کے مال میں برکت فرماتے ہوئے اسے کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو جس قدر چاہے بڑھا چڑھا کر دولت عطا فرمائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایسے سخی اور متّقی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے۔’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال اس دانے جیسی ہے، جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے، بڑھا چڑھا کر دے۔ 
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورۃ البقرہ آیت177)، قرآن حکیم کی سورۃ البقرہ ہی میں ارشاد ہے’’ (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔‘‘ ( سورۃ البقرہ آیت 215)
سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوروی کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت وضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس اور ضرورت واحتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال ودولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے زمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کئے گئے مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔دین اسلام سراسرخیر خواہی کا مذہب ہے، اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیاگیا ہے۔
دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے جو اطمنان قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے۔ محسن انسانیت نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی ہمیشہ غریبوں ،یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لئے آپ کے پاس آئی ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی باتیں سنتے رہے اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر ،مطمئن کر کے اسے بھیج دیا۔آپ کا فرمان ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کیلئے میں مدینہ کے دوسرے سرے تک جا نے کیلئے تیا ر ہوں۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا )رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے خادم (محتاج )تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ماتحت کردیا ہے۔پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو جو کھانا خودکھائے اس میں سے اسے کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے وہی اسے پہنائے اور اس سے ایسی مشقت نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اوراگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی کام اس کے سپر د کر ے تو خود بھی اس کی مدد کر ے۔ (بخاری ومسلم)، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے یقیناًصدقہ اللہ ربّ العزت کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اوربری موت کو دور کرتا ہے۔ ‘
حدیثِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے: تمام مسلمان (مومن) جسد واحد کی طرح ہیں۔ جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو دوسرا حصہ بھی اس کی شدت کو محسوس کرتا ہے۔ اس حدیث کی سچائی یوں ثابت ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں کہیں سے خبر ملے کہ کسی علاقے میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے یا ان کے انسانی حقوق غصب کئے جا رہے ہیں تو ہم پاکستانی بے چین ہو جاتے ہوں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان‘ عراق‘ شام‘ لیبیا‘ برما سب ہماری نظروں کے سامنے ہیں اور ہمارے دماغ مسلسل اپنے ان غم زدہ اور مصیبت کے مارے مسلمان بھائیوں کے بارے میں سوچتے ‘ ہمارے دل ان کے لئے دھڑکتے ہیں۔

موبائل: 9899252786
mgqasmi.juh@gmail.com

Ads