انسانیت کو سب سے بڑا مذہب اور سب سے اہم درجہ حاصل ہے۔ کسی بھی شخص کی اچھائی کی مثال اس کی انسانیت سے دی جاتی ہے۔ اسی لئے کسی کا بھی قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں اسی ملک کو مہذب ملک کا درجہ حاصل ہے جہاں انسانیت کا احترام کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے رہن، لوگوں کی آمدنی، آرام و آسائش، سہولت سے زیادہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی حساب انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کی درجہ بندی بھی ہوتی ہے۔ ہندوستان کی رینکنگ 162 ممالک میں 111 ہے۔یہ انسانیت کے لحاظ سے تشویشناک رینکنگ ہے۔ پڑوسی اور غریب ترین ممالک سے بھی کم ہے۔ یہ نیپال 92، سری لنکا 94، بھوٹان 108سے نیچے ہے۔ جب کہ پاکستان 140، بنگلہ دیش 139، چین 129سے بہتر ہے۔ انسانی حقوق کے معاملے میں سرفہرست دس ممالک میں نیوزی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، ہانگ کانگ،ڈنمارک، آسٹریلیا، کناڈا، آئرلینڈ، اسٹونیا، جرمنی ہیں، جبکہ جاپان،11برطانیہ امریکہ مشترکہ طور پر 17واں مقام پر ہیں۔ ابھی حال ہی میں نقص تغذیہ اور بھکمری کے معاملے میں ہندوستان 116ممالک میں 101 واں مقام پر ہے۔ ہندوستان کی یہ رینکنگ پڑوسی ممالک سے کمترین مقام پر ہے۔ ہندوستان میں انسانی حقوق کی بات کریں تو یہاں انسانی حقوق کی پامالی بڑے پیمانے پر حکومت اور حکمراں پارٹی کی سرپرستی میں کی جارہی ہے۔ غریب، پسماندہ، دلت،مسلمان اور کمزور طبقات کے حقوق روندے جاتے ہیں۔ جہاں دلتوں کو مندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے وہیں مسلمانوں کو کھلے میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ گڑگاؤں میں کئی ماہ جاری یہ معاملہ ایک روشن مثال ہے اور جمہوری حکومت کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔ جہاں کا وزیر اعلی ہی کہہ دے کھلے میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جبکہ اسی حکومت نے مسلمانوں کی ہزاروں ایکڑوقف زمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ اسی مسلمان کو نماز پڑھنے اور اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے کے لئے جگہ نہیں مل رہی ہے۔ سیکولر ہندوستانی حکومت کا یہ حقیقی چہرہ ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو لیکن مسلمانوں کو اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے کے لئے جگہ الاٹ نہیں دی گئی۔
اقوام متحدہ کے ابتدائے قیام کے دوران انسانی حقوق منشور اہم کارنامہ ہے جس کا مقصد پوری دنیا میں انسانی حقوق کی حفاظت کرنا ہے اور ہر سال 10دسمبر کو بین الاقوامی یوم انسانی حقوق منایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کے انتخاب کا مقصد 10 دسمبر 1949ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے توثیق کردہ انسانی حقوق کا آفاقی منشور کی یاد تازہ کرنا اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کروانا ہے۔ اسے عالمی سطح پر انسانی حقوق کا پہلا اعلان تعبیر کیا جاتا اور اقوامِ متحدہ کی ابتدائی بڑی کامیابیوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ یومِ انسانی حقوق کا رسمی تعین 4 دسمبر 1950ء کو جنرل اسمبلی کے 317ویں اجلاس میں ہوا، جب جنرل اسمبلی نے قرارداد 423(V) پیش کی، جس کے تحت تمام رکن ممالک اور دل چسپی رکھنے والی دیگر تنظیموں کو یہ دن اپنے اپنے انداز میں منانے کی دعوت دی گئی۔عموماً اس دن اعلیٰ سطحی سیاسی کانفرنسوں اور جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور تقریبات و نمائش کے ذریعے انسانی حقوق سے متعلقہ مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں۔جنرل اسمبلی میں منشور کی منظوری کے وقت اسے ”تمام افراد اور تمام اقوام کے لیے حصولِ مقصد کا مشترک معیار“ قرار دیا گیا۔ اس موقع پر 48 رکن ممالک نے اس کی حمایت کی جب کہ آٹھ ممالک نے حق رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔
ہندوستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر ہر سال رپورٹ جاری ہوتی رہتی ہے جس میں انسانی حقوق کے تعلق سے حکومت کی کارکردگی کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 2020 میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان اورہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔مریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کی جانب سے 30 مارچ 2021 کوجاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق پامال کرنے والے اکثر سزاؤں سے بچ جاتے ہیں جب کہ ہندوستان میں شہری آزادیوں، آزادی صحافت پر قدغن، عدم برداشت اور ماورائے عدالت ہلاکتوں جیسے مسائل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں ماورائے عدالت ہلاکتیں، پریس اور اظہار کی آزادی پر پابندی، مذہبی آزادی پر قدغن اور بدعنوانی سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعدد معاملات پائے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق کشمیر میں حکومت متعدد اقدامات کر رہی ہے جس کی وجہ سے وہاں انسانی حقوق کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔تاہم اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں گزشتہ سال جون تک 32 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔رپورٹ میں بعض ریاستوں میں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے من مانی گرفتاریوں اور جیلوں میں سیاسی قیدیوں کے سخت اور خطرناک حالات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ان میں سے پرگیہ ٹھاکر تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر بھارتی پارلیمان کی رکن 'منتخب‘ ہوئی ہیں۔ جب کہ مایا کونڈنانی نریندر مودی کے زیر قیادت گجرات حکومت میں وزیر رہ چکی ہیں۔ کونڈنانی اور بابو بجرنگی اور دیگر کو 2002ء گجرات فسادات کے دوران احمدآباد کے نردو اپاٹیہ قتل عام کے واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن یہ سب ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں۔یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ مئی 2014ء میں ہندو قوم پرستوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے گجرات فسادات اور بم دھماکوں میں ملوث تمام ماخوذ افراد بتدریج ضمانت پر چھوڑ دیے گئے ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی درجہ میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے ہے۔دوسری طرف 58 سالہ سائی بابا ہیں، جو اپنی زندگی کے لیے دوسروں پر پوری طرح سے منحصر ہیں۔ اگر انہیں رہا کیا جائے گا تو وہ ملک کے لیے کونسا خطرہ بن سکتے ہیں؟۔ سائی بابا کو جیل انڈا سیل میں رکھا گیا ہے، جہاں سنگین مجرموں کو رکھا جاتا۔اس سیل میں متعدد قیدی کووڈ کا شکار ہیں اور ان میں سے ایک کی موت بھی ہو چکی ہے۔انہیں کیوں ہسپتال نہیں لے جایا گیا؟ ایک پولیو زدہ ایسا شخص ہے، جو چل بھی نہیں سکتا صرف اس کا دل اور دماغ کام کرتا ہے کیوں اسے ریاست (حکومت) ضمانت پر رہا کرنے سے ڈرتی ہے؟ میرے خیال میں محترمہ وسنتا کا اپنے شوہر کے بارے میں یہ کرب انگیز احساس اور شکوہ بیجا نہیں ہے، جو اس وقت ملک میں حقوق انسانی کے حوالے سے دوہرے معیار کی صورت حال کی بھر پورعکاسی کرتا ہے۔ 83 سالہ فادر اسٹین سوامی کا کیس بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ (اسٹین سوامی کا انتقال ہوچکا ہے) انہیں تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی ایک عدالت نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سوامی کو صوبہ جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی سے اکتوبر 2020ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ نوی ممبئی کے تلوجہ سنیٹرل جیل میں بند ہیں۔ سوامی پارکینسن کے سبب کھانے کا نوالہ بھی پکڑ نہیں پاتے۔ وہ سیال چیزیں ہی بطورغذا استعمال کر سکتے ہیں لیکن کئی مہینوں کے انتظار کے بعد انہیں اسٹرا (نلکی) فراہم کی گئی۔ اسی کیس میں گرفتار ایک اور بزرگ 80 سالہ انقلابی شاعر وار ویرا راؤ کو حال میں بڑی مشکلوں کے بعد عدالت نے عارضی طور پر بغرض علاج رہا کیا۔ وہ ضعیفی سے متعلق کئی بیماریوں کا شکار ہیں خاص طور سے ان کا غیرارادی طور پر پیشاب نکل جاتا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد کارکن قید ہیں، جو عمررسیدہ ہیں۔ ان درجنوں کارکنوں کو انسداد دہشت گردی کے انتہائی سخت قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، جس میں ضمانت ملنا انتہائی مشکل امر ہے۔ اسی طرح دہلی میں گزشتہ فروری میں ہوئے فسادات میں گرفتار طلبا پر بھی اس قانون کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت مخالفین کے خلاف ملک سے غداری کے قانون کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال اس میں 165 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنی عالمی رپورٹ 2020 میں کہا ہے کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر میں ہندوستانی حکومت کے یکطرفہ اقدامات نے کشمیری عوام کے لیے بھاری تکالیف پیدا کی ہیں اور انسانی حقوق کی زیادتیوں کا موجب بنے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے صوبے کا خصوصی آئینی مقام ختم کیا اور اسے دو مختلف علاقوں میں تقسیم کر دیا جنہیں وفاق کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔ہندوستانی حکومت مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی، پُرامن اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے بغاوت اور انسداد دہشت گردی کے ظالمانہ قوانین کا استعمال کیا اور حکومتی اقدامات اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کی زبان بندی کے لیے غیرملکی فنڈنگ قواعد اور دیگر قوانین کا استعمال کیا۔''ہندوستانی حکومت نے کشمیر کو بند کرنے کی کوشش کی، وہاں پہنچنے والے نقصان سے پردہ ڈالنے کے لیے،'' ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشاء ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا۔ ''مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں سے نمٹنے کی بجائے، ہندوستانی حکام نے 2019 میں تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کی اپنی کوششیں تیز کیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنے 652 صفحات پر مبنی عالمی رپورٹ 2020 جو کہ ایچ آر ڈبلیو کی سالانہ عالمی رپورٹ کا تسیواں شمارہ ہے، میں لگ بھگ 100 ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ اپنے تعارفی مضمون میں، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینیتھ روتھ نے کہا ہے کہ چینی حکومت جو اقتدار میں رہنے کے لیے جبر پر منحصر ہے، کئی عشروں سے انسانی حقوق کے عالمی نظام پر شدید حملے کر رہی ہے۔ بیجنگ کے اقدامات دنیا بھر میں عوامیت پسند جابر حکمرانوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں اور ان سے مدد بھی لے رہے ہیں، جبکہ چینی حکام حکومتوں کی تنقید سے بچنے کے لیے معاشی طاقت بروئے کار لاتے ہیں۔ اس حملے جوانسانی حقوق پر عشروں کی محنت اور ہمارے مستقبل کے لیے خطرہ ہے، کی مزاحمت ضروری ہے۔جموں و کشمیر میں اقدامات سے پہلے، حکومت نے صوبے میں اضافی دستے تعینات کیے، انٹرنیٹ اور فون سروس بند کی، اور ہزاروں کشمیریوں کو بیجا طور پر حراست میں لے لیا جن میں سیاسی رہنماء، کارکن، صحافی، وکیل، اور ممکنہ مظاہرین اور بچے شامل تھے۔ مظاہروں کو روکنے کے لیے سینکڑوں لوگوں کو بغیر الزام کے قید میں رکھا گیا یا گھروں میں نظربند کیا گیا۔حکومت مذہبی اقلیتوں اور دیگر غیرمحفوظ طبقوں پر بلوائی حملے جو اکثر بی جے پی کے حامیوں نے کیے، رکوانے کے لیے عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مؤثر اطلاق میں ناکام رہی ہے۔ مئی 2015 سے اب تک، انتہاپسند ہندو گروہ گوشت کے حصول کے لیے گائے کی تجارت یا اسے ذبح کرنے کی افواہوں پر کان دھرتے ہوئے 50 لوگوں کو قتل اور 250 سے زائد کو زخمی کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا اور ہندوآنہ نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ پولیس جرائم کی باقاعدہ تحقیقات کرنے میں ناکام رہی، تحقیقات روک دیں، قواعدوضوابط نظرانداز کیے، اور گواہوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اُن کے خلاف فوجداری مقدمے درج کیے۔
امریکہ نے بین الاقوامی یوم انسانی حقوق کے موقع پر چین، میانمار، شمالی کوریا اور بنگلہ دیش کے درجنوں افراد اور ان ممالک سے تعلق رکھنے والے اداروں پر بھی وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق پابندیاں عائد کی ہیں لیکن کیا امریکہ یہ قدم نشان زد قدم نہیں ہے۔ یوروپ ہو یا امریکہ، مغربی ممالک ہوں یا دیگر ممالک کسی کو بھی حقیقی معنوں میں انسانی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بازار پر مبنی ممالک کو اس فہرست میں ڈالنے سے سو بار سوچتے ہیں۔ مذہبی پابندی، اپنی مرضی سے کھانے پینے کی پابندی، مذہب اختیار کرنے کی پابندی، رہن سہن کی پابندی وغیرہ جہاں موجود ہو وہاں اس ملک کو جمہوری ملک اور انسانی حقوق کا علمبردار ملک کیسے کہا جاسکتا ہے۔ دنیا دراصل پوری طرح سرمایہ پر مبنی ہوگئی ہے اسے انسانی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں عیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر تو ظلم دکھائی دیتا ہے لیکن مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اسے نظر نہیں آتا۔