Masarrat
Masarrat Urdu

آسام میں شہریت سے متعلق مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند کو ملی ایک اور بڑی کامیابی

Thumb


سپریم کورٹ نے ڈی ووٹر کے مقدمات کو مقامی عدالتوں میں منتقل کرنے کاتاریخی فیصلہ دیا
نئی دہلی (29 ، جنوری 2019 ): جمعیۃ علماء صوبہ آسام کی جانب سے دائر کردہ اسپیشل رٹ پٹیشن پر سماعت کے بعد آج جسٹس روہنگٹن فالی نریمن اور جسٹس نوین سنہا پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے آسام میں ڈی ووٹر قرار دئیے گئے لوگوں کے مقدمات ان کے مقامی اضلاع میں واقع ٹریبیونل میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کو راحت ملے گی۔ جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بد رالدین اجمل قاسمی صاحب کی ہدایت پر جمعیتہ علماء آسام نے یہ مقدمہ دائر کیا تھا۔
جمعیۃ علماء صوبہ آسام کی جانب سے متأثرین کے مقدمہ کی پیروی کے لئے سینئر اڈووکیٹ جے دیپ گپتا، اڈووکیٹ منصور علی، اڈووکیٹ ابولقاسم تعلقدار وغیرہ موجود تھے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ لوگوں کا مقدمہ دوسرے اضلاع میں ہونے کی وجہ سے کتنی پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے اور قانونی اعتبار سے اس مقدمہ سے جڑے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھا جس کے بعد عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ جس معین الحق نامی کریم گنج کے باشندہ کے لئے یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچاہے اس کے مقدمہ کو فورا اس کے مقامی ضلع میں واقع ٹریبونل میں ٹرانسفر کیا جائے اور اس طرح کے باقی مقدمات کو بھی متأثرین کے مقامی اضلاع میں ٹرانسفر کرنے کی اجازت دی جائے۔آج کے اس تاریخی فیصلہ کے بعدجمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بد رالدین اجمل قاسمی صاحب نے کہا کہ آسام کے لوگوں کی شہریت کے تحفظ کی لڑائی لڑنے والی جمعیۃ علماء ہند کی یہ ایک اور بڑی کامیابی ہے،اور امید ظاہر کی کہ شہریت سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر سماعت دیگر مقدمات میں بھی انشاء اللہ حق و انصاف کی جیت ہوگی اور پروپیگنڈہ کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑیگی ۔واضح رہے کہ آسام میں وہ غریب لوگ جو معاش کی تلاش میں کسی دوسرے شہر یا علاقہ میں گئے اور وہاں کچھ دنوں رہکر کوئی چھوٹی موٹی نوکری کی، چھوٹی موٹی تجارت کیا یا مزدوری وغیرہ کیا پھر اس کے بعد وہ اپنی روزی روٹی کی تلاش میں اُس جگہ سے اپنی اصل جگہ یا پھر کہیں اور چلے گئے۔مگر اُن کے وہاں رہنے کے دوران کبھی پولس والے نے ان سے ان کا نام اور پتہ پوچھا اور شہریت کا ثبوت مانگا اور انہوں نے کہا کہ ڈوکومنٹ گھر پرہے ، اس کے بعد انہیں چھوڑ دیا مگر کئی سالوں بعد وہاں کے فورین ٹریبونل سے ان لوگوں کے پاس نوٹس آتا ہے کہ آپ کو ڈی ووٹر قرار دیا گیا ہے اسلئے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے ان شہروں کے فورین ٹریبیونل میں حاضر ہونا ضروری ہے جہاں آپ کبھی رہ چکے ہیں۔ اب پریشانی یہ ہے کہ ان غریبوں کے پاس دوسرے شہروں میں وکیل کا انتظام کرنا،وہاں ہر تاریخ پر حاضر ہونا، گواہوں کو ان شہروں کے کورٹ میں جاکر گواہی دینے کو راضی کرنا انتہائی مشکل کام ہے جسے پورا نہ کرنے کے نتیجہ میں فورین ٹریبونل ایسے لوگوں کو ڈی ووٹر قرار دیتی جا رہی تھی۔ واضح رہے کہ جنوری 2018 میں ایک سوال کے جواب میں آسام سرکار نے اسمبلی میں کہا ہے کہ پچاس ہزار سے زائد ایسے مقدمات آئے ہیں جس میں متأثرین کے حاضر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ڈی ووٹر قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مقامی اضلاع میں مقدمہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پاس شہریت کے دستاویز ہونے کے با وجود چونکہ وہ وقت پر دوسرے شہروں کی عدالت میں نہیں پہونچ سکے اسلئے ان لوگوں کو ڈی ووٹر قرار دیا جا رہاتھا۔ان لوگوں نے درخواست کی کہ ان کے مقدمات کو اُن کے مقامی عدالتوں میں منتقل کر دیا جائے تاکہ وہ بہ آسانی اپنے مقدمات کی پیروی کر سکے مگر پہلے فورین ٹریبیونل نے اور بعد میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے منع کر دیا۔ معاملہ چونکہ لاکھوں لوگوں کی شہریت سے متعلق تھا کیوں کہ اگر فیملی کا ایک ممبر بھی ڈی ووٹر قرار پا گیا تو پھر اس فیملی کے تمام ممبر کا نام این آر سی میں شامل نہیں ہوگا اور وہ ان تمام سہولتوں سے محروم ہو جائیں گے جو ایک ہندوستانی شہری کو حاصل ہے، اسلئے جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بد رالدین اجمل قاسمی صا حب کی ہدایت پر جمعیۃ علماء صوبہ آسام نے ان میں سے ایک متاثر جناب معین الحق جو کریم گنج کے باشندہ ہیں ان کی جانب سے 23 اپریل 2018 کو سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ( SLP (c) No. 12467/2018 ) اور Diary No. 13147/2018 دائر کیا تھا تاکہ اس کیس میں مثبت فیصلہ کے ساتھ اسی طرح کے دیگرلاکھوں لوگوں کو بھی راحت مل سکے۔، کئی تاریخوں کے بعد آج عدالت نے بالآخر اپنا تاریخی فیصلہ سنا یاجو لاکھوں لوگوں کے لئے باعث راحت ہے۔ آج کی سماعت کے دوران مولانا بد رالدین اجمل صاحب کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند صوبہ آسام کے سکریٹری مولانا فضل الکریم قاسمی اور مولانا منظر بلال قاسمی وغیرہ موجود تھے۔

Ads