نئی دہلی، 3اگست () اردو زبان کی شیرینی اور آن لائن مشاعرہ تو دراصل وبا سے پیدا شدہ نفسیاتی زہر کا تریاق سا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بات سابق مرکزی وزیر ڈاکر اشونی کمار نے بحیثیت مہمانِ خصوصی آئیڈیا کمیونی کیشنز، تسمیہ ایجوکیشنل و سوشل ویلفیر سوسائٹی اور دی پین فاونڈیشن کے زیر اہتمام سالانہ مشاعرہ جشن چراغاں کے آن لائن مشاعروں کے تیسرے حصے میں بین الاقوامی مشاعرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ جشنِ چراغاں کا حصہ بننا میرے لیے قابل فخر ہے اور اس مشکل وقت میں مشاعروں اور دیگر ثقافتی پروگراموں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے معروف سماجی شخصیت اور آئیڈیاکمیونی کیشنز کے وائس چیرمین ڈاکٹر سید فاروق نے کہا کہ جشن چراغاں محبت اور باہمی اتحاد بڑھانے کی کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے جو وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ہم سب اس عظیم ملک کا حصہ ہیں اور اس کی خدمت اور اس کی تعمیر وترقی کے لیے کوشش ہماری ترجیح اوّل ہے۔
مہمان اعزازی شکیل احمد صبرحدی نے اپنے خطاب میں دی پین فاونڈیشن کی کاوشوں کا بطورخاص تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ فاونڈیشن جس طرح خاموشی سے ضرورت مند اور بیمار قلمکاروں اورآرٹسٹ حضرات کی مدد کررہی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ آئیڈیاکمیونی کیشنز کے ڈائریکٹر آصف اعظمی نے تعارفی کلمات پیش کیے جب کہ نظامت کے فرائض صہیب فاروقی نے انجام دیے۔ ڈیڑھ سو سے زائدمشاعرہ کے سامعین میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی ممبر جیوتکا کالرا، ہندوستان کے ایگزیکیٹیو ایڈیٹر پرتاپ سوم ونشی،زیڈ کے فیضان، پروفیسر حبیب اللہ خان فاروق انجینئر، اعظم عباس شکیل، بسنت مہتہ جیسی اہم شخصیات شامل تھیں۔ اس موقع پر مینا خان کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے عہدہ سے سرفراز ہونے پر مبارکباد بھی پیش کی گئی۔
جشن چراغاں آن لائن کی اس تیسری وس قسط کے شعرا کے کلام کا نمونہ درج ذیل ہے:
میری تنہائی سے خوابوں کی شناسائی ہے
یہ بھی اک زاویہئ انجمن آرائی ہے
پروفیسر شہپر رسول
منجمد ہونے لگا اظہار کا پورا بدن
یہ مری آواز کا چہرہ پگھلتا کیوں نہیں
عزیز نبیل (قطر)
رنگ چہرے کا بدلنا نہیں اچھا لگتا
اب کسی شکل میں ڈھلنا نہیں اچھا لگتا
سرفراز مکدم (ساؤتھ افریقہ)
اس کو مرگی کا مرض ہے یہ بتا کر سب کو
مجھ کو سالوں نے بہانے سے سونگھایا جوتا
اشفاق دیشمکھ
ہمارا عشق کرامت سے کم نہیں جاناں
تمھارے حسن میں اس سے نکھار آئے گا
صہیب فاروقی
اپنے دل کو اس طرح بھی شاد کر لیتے ہیں ہم
بیٹھ کر تنہا تجھے بس یاد کر لیتے ہیں ہم
مینا خان
سب نے دیکھی ہے تباہی بڑی خاموشی سے
تم تو کہتے تھے وہاں اہلِ زباں رہتے ہیں
سریندر شجر
روبرو جب اپنی بیوی کے میاں ہو جائے گا
چاہے جتنا بولتا ہو بے زباں ہو جائے گا
اقبال فردوسی
جو عہدِ نو میں خمیرِ بشر بنایا جائے
سناں کو ہاتھ تو نیزے کو سر بنایا جائے
ڈاکٹر خالد مبشر
شام ڈھلے اس شہر کی اندھی گلیوں میں
چاند نہ جانے کس کو ڈھونڈا کرتا ہے
عالم غازی پوری
خود کو چھپاکر سیاروں کی گردش میں
کون ہے جو پوشاک بدلتا رہتا ہے
مشتاق احمد مشتاق
تم نے جب سے اپنی پلکوں پر رکھّا
کالک کو سب کاجل کاجل کہتے ہیں
وشال باغ
روکنا ہے تو سمندر ہی مجھے روکے گا
آگ کا راستہ جنگل نہیں روکا کرتے
مصداق اعظمی
نہ ٹوٹ جائے کہیں ضبط ہم غریبوں کا
چڑھا کے یوں نہ چلیں آپ آستیں صاحب
نوشاد اشہر